پاکستان

سائبراسپیس و ٹیکنالوجی کو خارجہ پالیسی کے تناظر میں استعمال کیا جارہا ہے: ماہرین

تنازعات کو ابھار کر ریاست کی قومی پالیسی کو متنازع بنانا، عوام میں ذہنی تناؤ اور امن وامان کو خراب کرنا اہم ترین ہتھیار ہیں، دفاعی ماہرین کا سیمینار سے خطاب۔ فوٹو: جیو نیوز

کراچی: دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی بہترین جغرافیائی پوزیشن اور خطے میں بڑھتے تعلقات کے باعث نہ صرف بھارتی جارحیت بلکہ بھارت سے قریبی تعلقات رکھنے والے امریکا سمیت دیگر ممالک کے دباؤ کا سامنا کررہا ہے جب کہ سائبر اسپیس و ٹیکنالوجی کو خارجہ پالیسی کے تناظر میں سیکیورٹی، نظریاتی، اور نفسیاتی دباؤ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

کراچی میں مرکز برائے امن، سلامتی اور ترقیاتی مطالعہ (سی پی ایس ڈی)کی جانب سے 'اسٹریٹجک دباؤ، عالمی صورت حال اور جنوبی ایشیاء' کے موضوع پر سیمینار میں پاکستان سمیت غیر ملکی اسکالرز نے اظہار خیال کیا۔

امریکی اسکالر مائیکل کوگل مین، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آغا عمر فاروق، وائس ایڈمرل ریٹائرڈ حشام بن صدیق، ڈاکٹر ظفر جسپال، روسی اسکالر میکسم شیپو ولینکو، ڈاکٹر معید یوسف، طارق کھوسہ، سابق سفیر عبدل باسط، ڈاکٹر سلمان شاہ، ڈاکٹر رضوانہ عباسی سمیت دیگر نے جنوبی ایشیا کی صورتحال اور اسٹریٹجک دباؤ کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکی اسکالر مائیکل کوگل مین نے امریکی خارجہ پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں یہ بات نمایاں ہے وہ امریکا کے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلقات کو ازسر نو بہتر بنارہے ہیں۔

مائیکل کوگل مین نے کہا کہ امریکی عوام کی آواز خارجہ پالیسی میں جھلک رہی ہے کہ امریکا اپنی افواج کے نقصان کو مزید برداشت نہیں کرسکتا اور اُسے اپنے مختلف محاذ بند کرنا چاہئیں۔

امریکی اسکالر کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کے بھارت سے دفاعی تعلقات مضبوط ہیں لیکن معاشی و تجارتی تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہے جبکہ نیٹو ممالک سے بھی امریکا کے تعلقات خراب ہورہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ امریکا سمجھتا ہے کہ چین کا دنیا بھر میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آغا عمر فاروق نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ بڑی طاقتیں نہ صرف معاشی بلکہ داخلی سطح پر بھی ہائبرڈ وار سے چھوٹے ممالک کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بھارتی جارحیت میں یہ بھارتی گمان ہے کہ جنگ شروع کی جائے اور یہ محدود رہے تاہم یہ کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔ 

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے اس موقع پر کہا کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے سفارتکاری دباؤ کے دہرے معیار رکھے جاتے ہیں،  ایک طرف ایران پر پابندیوں کو جواز بنا کر پاکستان پر گیس پائپ لائن منصوبے سے روکنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے دوسری جانب بھارت کو چاہ بہار میں سرمایہ کاری پر کوئی نہیں پوچھتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی طاقتور ریاست معاشی اور اسٹرٹیجک دباؤ کے ذریعے اپنے قومی مفاد حاصل کر سکتی ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ظفر جسپال نے کہا کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا آرٹیکل بھارت کی کمزور عسکری قوت ظاہر کرنے سے زیادہ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ طاقتور ملک اپنے دفاعی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے کس طرح کے اپنی دباؤ کی پالیسی کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ موجودہ دور میں روس بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے کئی مواقعوں پر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے دنیا خصوصاً خطے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔

وائس ایڈمرل ریٹائرڈ خان حشام بن صدیق نے کہا کہ سائبر اسپیس و ٹیکنالوجی کو خارجہ پالیسی کے تناظر میں سیکیورٹی، نظریاتی، اور نفسیاتی دباؤ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

سیمینار سے خطاب میں ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ہائبرڈ جنگ لڑ رہا ہے مگر پچھلے چند سالوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

روسی اسکالر میکسم شیپو ولینکو نے کہا کہ اس دور میں قوموں کو اقدار سے ہٹانا، تنازعات کو ابھار کر ریاست کی قومی پالیسی کو متنازع بنانا، عوام میں ذہنی تناؤ اور امن وامان کو خراب کرنا اہم ترین ہتھیار ہیں جو کسی بھی ریاست پر دباؤ کے لیے اہم حربہ ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی بہترین جغرافیائی پوزیشن اور خطے میں بڑھتے تعلقات کے باعث بھارت، امریکا اور دیگر ممالک کے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندرونی مسائل کو حل کرے اور خطے میں تجارتی مراسم کو بہتر کرے۔

مزید خبریں :