صحت پہلے یا سیاست؟

— سابق وزیراعظم میاں نواز شریف

سابق وزیراعظم نواز شریف ان دنوں العزیزیہ ریفرنس میں سنائی گئی 7 سال قید کی سزا لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے ہیں جہاں وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور ان کی صحت کے حوالے سے کئی میڈیکل بورڈز بھی بن چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں ان کی بیٹی مریم کو ان سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی جس پر ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی طبعیت ٹھیک نہیں لیکن انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات کرکے ان کی مزاج پرسی کی۔

ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان میثاق جمہوریت سمیت ملکی سیاسی صورت حال پر بھی بات ہوئی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے کو جیل میں دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ میں نےمیاں نواز شریف کوسندھ میں بہترین علاج کی سہولیات فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔ پیپلزپارٹی رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو یہ قتل سمجھا جائے گا جس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔

میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں مختلف اسپتالوں کے چکر لگوائے گئے لیکن امراض قلب اسپتال لے کر جانے کے بجائے انہیں دیگر اسپتالوں میں لے کر جانے سے ان کی عزت نفس متاثر ہوئی اور اب وہ کسی اسپتال جانے کو تیار نہیں ۔

میاں شہباز شریف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے بھائی اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو علاج کی سہولت فوری فراہم کی جائے اور اگر ان کے بھائی کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی جب کہ مریم صفدر نے اپنے والد کے علاج کے لئے جیل میں امراض قلب کا پورا یونٹ تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو 24 گھنٹے کام کرے۔ صورت حال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے حکومت پنجاب نے نواز شریف کے علاج کے لئے جیل میں ایک یونٹ قائم کردیا جس میں 24 گھنٹے ماہر امراض قلب ڈیوٹی دیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے حکومت پنجاب کو میاں نواز شریف کو علاج کی ہرممکن سہولیات فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ جس کے جواب میں محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے ایک خط جاری کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پاکستان کے کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ اسپتال اور ڈاکٹرسے علاج کروانا چاہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ تاہم میاں صاحب کے قریبی ذرائع کے مطابق نواز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے ان کی ضمانت کی درخواست منظور ہو جانے کے بعد وہ لندن جا کر اپنے ڈاکٹر سے علاج کروائیں گے ۔

ادھر برطانیہ سے موصول ایک خبر کے مطابق لندن میں نواز شریف کے ڈاکٹر نے ان کی لیباریٹری ٹیسٹ کی رپورٹس دیکھ کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جیل کے کمرے میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے رگوں میں خون کی روانی متاثر ہورہی ہے ۔ لیکن پاکستان میں ماہرین نے برطانیہ میاں نواز شریف کے معالج کو بھیجی رپورٹس پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اڈیالہ جیل لاہور شہر سے دور واقع ہے اور کھلی جگہ پر ہونے کی وجہ سے وہاں آکسیجن کی کمی کا ہونا انوکھی بات لگتی ہے پھر اس علاقے میں آلودگی بھی بہت کم ہے۔

میں نے کئی بار اڈیالہ جیل کے ان کمروں کو دیکھا ہے جہاں وی وی آئی پی شخصیات کو رکھا جاتا ہے۔ یہ کمرے گھر کے کمروں کی طرح بند نہیں ہوتے جہاں ہوا کا گزر کم ہو، جیل کے ان کمروں کی چھتیں اونچی ہوتی ہیں اور ان میں ہوا کا مناسب گزر کا خیال رکھا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جس کمرے میں میاں نوازشریف کو رکھا گیا ہے اس کے باہر 500 گز کے قریب زمین پر سبزہ بھی لگا ہوا ہے او یہ ممکن نہیں ہے جیل کے سیل میں آکسیجن کی کمی ہو۔ بہرحال میاں صاحب کے پاکستانی ڈاکٹر رپورٹ ارسال کرنے سے پہلے ایک بار جیل کی وہ جگہ دیکھ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

میاں صاحب کے کمرے میں آکسیجن کا معاملہ ہم جیل انتظامیہ پر چھوڑتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف جیل میں ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی طبعیت خراب ہے ۔ فوری اور بہترین علاج کی سہولت ہر شہری اور قیدی کا بنیادی حق ہے اور اسے سیاست کی نظر کرنا ٹھیک نہیں ہے

موجودہ صورت حال میں میاں نواز شریف ایک سزا یافتہ قیدی ہیں اور ان کی ضمانت کی درخواست عدالت عظمیٰ میں زیر التواء ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جیل میں قید دیگر بیمار قیدیوں کو یہ حق نہیں ملنا چاہیے؟ کیا دیگر قیدیوں کا قصور یہ ہے کہ وہ غریب پاکستانی قیدی ہیں اور ان کو یہ سہولت فراہم نہیں جا سکتی ۔ یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلے دنوں کیمپ جیل لاہور میں قید ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے کیمپس ڈائریکٹر نے دل میں تکلیف کی شکایات کی جس پر جیل انتظامیہ نے توجہ نہیں دی اور ان کو امراض قلب کے اسپتال منتقل کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی ۔ اس شخص کی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جیل انظامیہ کو ہوش آیا اور اسپتال منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ لیکن بر وقت طبی امداد نہ ملنے اور اسپتال منتقل نہیں کیے جانے سے ان کی موت واقع ہو گئی ۔ بعد میں اس ڈائریکٹر کی ہتھکڑی لگی لاش کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد جیل انتظامیہ میں کھلبلی مچی ۔

میڈیا کو بھی ایک اشو ہاتھ لگ گیا جسے سب نے مل کر پیٹنا شروع کر دیا۔ خبروں سے ٹاک شوز تک ہتھکڑی لگی لاش کی تصویر دکھا کر قصور وار اہکاروں کو سخت سزا دینے کے مطالبے ہوئے۔ جیل انتظامیہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی جس میں دکھایا گیا کہ مریض قیدی کو اسٹریچر پر ڈالتے وقت ہتھکڑی نہیں لگی تھی اور پولیس نے اسپتال منتقل کرتے ہوئے اسے ہتھکری لگائی ۔ افسوس ہوتا ہے اس طرح کی خبروں یا یوں کہوں کہ کسی مجبور شخص کی لاش پر اپنی دکان چمکانے والوں پر۔

میں حیران ہوں کہ ایک قیدی کی جیل میں بروقت علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث موت واقع ہو جاتی ہے ۔ ایک شخص بچارگی اور جیل انتظامیہ کہ مجرمانہ غفلت سے مر جاتا ہے اور میڈیا کی توجہ اس کو علاج کی بروقت فراہمی نہ ملنے پر نہیں بلکہ ہتھکڑی لگی رہنے پر اور اس کے ذمہ داروں کو سخت سزا دینے پر رہتی ہے۔

میڈیا کے کردار پر کسی اور وقت بات کریں گے ورنہ ہماری توجہ میاں نواز شریف کی بیماری پر نہیں رہے گی۔ ہم بات کر رہے تھے کہ میاں نواز شریف علاج کروانے پر تیار نہیں ہو رہے ۔ مگر میرے خیال میں حکومت کی جانب سے میاں نواز شریف کو علاج کرانے کی جو پیشکش کی گئی ہے اس پر میاں صاحب کو ایک بار پھر غور کرنا چاہیے کیوں کہ "جان ہے تو جہان ہے" ۔

مجھے خدشہ ہے کہ میاں نواز شریف اپنی تکلیف برداشت کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہیں گے لیکن سیاسی رہنما ان کی صحت پر سیاست چمکاتے رہے گے۔ اللہ میاں صاحب کو صحتیاب کرے مگر فی الحال میڈیا پر ٹاک شوز میں زور شور سے ان کی خرابی صحت پر باتیں ہو رہی ہیں اور ان کی زندگی اور خدا نا خواستہ موت واقع ہونے کے بعد کی صورت حال پر سیاسی جماعتوں کے رہنما بیانات دے رہے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ مقبولیت اور ریٹنگ کی دوڑ کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ میاں صاحب کی صحت کے مسئلے کو سیاسی رنگ دے کر انسانی کے بجائے محض سیاسی بنایا جا رہا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی کی بیماری کو بہانہ بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی نواز شریف سے ملاقات میں جب میثاق جموریت کی مزید مضبوط اور فعال کرنے کی بات سامنے آئی تو سمجھ آیا بیمار کی عیادت کے دوران اس کی صحت کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے یا پھر میثاق جمہوریت پر بات کی جاتی ہے۔

طبی سہولیات کی بروقت فراہمی ہر قیدی کا بنیادی حق ہے جس میں کوتاہی کسی طرح نہیں ہونی چاہیے۔ نواز شریف دل کے مریض ہیں اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں ہےکہ وہ شدید بیمار ہیں اور ان کا فوری علاج ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت میاں صاحب کے علاج پر سنجیدگی سے کیوں نہیں دکھا رہی؟ اس سوال کے جواب میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ طب کے شعبے کا یہ اہم ترین اصول ہے کہ اگر کوئی مریض اپنا علاج نہ کروانا چاہے تو ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرسکتا اور اگر وہ ایسا کرے تو مریض اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے۔ اگر مریض آپریشن تھیٹر میں آپریشن کی میز پر پہنچ کر بھی یہ کہہ دے کہ وہ آپریشن نہیں کروانا چاہتا تو ڈاکٹر اس کا آپریشن نہیں کر سکتا تاہم آپریشن نہ کروانے سے مریض کو کسی قسم کے نقصان کا ذمہ دار ڈاکٹر نہیں ہوگا۔

میرے خیال میں میاں نواز شریف کو چاہیے اپنی صحت کا خیال کریں اور جب تک انہیں ضمانت نہیں مل جاتی لاہور کے امراض قلب کے اسپتال کے ماہر ڈاکٹروں پر بھروسہ کریں اور اپنا علاج کروائیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو دنیا کے کسی بھی اچھے اسپتال میں مہیا ہیں ۔

دیگرسیاست دان بھی سیاست کاکھیل کھیلنے کے بجائے نواز شریف کو مشورہ دیں کہ وہ پاکستان میں اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی ڈاکٹر یا اسپتال میں علاج کروا لیں تا وقت کہ ان کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں مل جاتی کیوں کہ زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ جان ہے تو جہان ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔