شہباز شریف — مرتا کیا نہ کرتا

— شپباز شرہف

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی پی ٹی آئی وزرا اور اہم رہنماؤں نے کہنا شروع کردیا کہ مسلم لیگ ن میں فاورڈ بلاک بن رہا ہے، نواز لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کے ارکان اسمبلی تحریک انصاف کے رابطے میں ہیں ۔ ایسا ہواتو نہیں لیکن جب مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی نے میاں شہباز شریف کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیرمین اور پارلیمانی لیڈر کے حیثیت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو سمجھ آیا کہ پارٹی میں اختلافات موجود ہیں جو اس قسم کے فیصلوں کی صورت میں منظرعام پر آ رہے ہیں۔

میاں شہباز شریف کو ہٹانے کی خبر نے جہاں ن لیگ کے بہت سے رہنماؤں اور کارکنوں کو حیران کردیا، وہاں خود شہباز شریف پر بھی یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ نواز لیگ کے قابل اعتماد ذرائع بتاتے ہیں کہ اس وقت لندن میں مقیم شہباز شریف کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین شپ اور پارلیمانی لیڈر شپ کے عہدے سے ہٹانے کے لئے نواز شریف نے خود رابطہ نہیں کیا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ عطا تارڑ کے ذریعے میاں شہباز شریف کو پیغام بھجوایا تو انہوں نے اپنا نواز شریف کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔

عطا تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کے پوتے ہیں۔ وہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد ن لیگ کی صوبائی حکومت کے دوران وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے اور رکن اسمبلی حمزہ شہباز شریف کے سیکرٹری کے عہدوں پر فائز رہے اور آج بھی وہ ان رہنماووں کے سیکریٹری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

 معتبر ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو ان کے پارلیمان میں کردار کو محدود کیے جانے اور پارلیمانی لیڈر اور پبلک اکاوننٹس کمیٹی کے سربراہی سے ہٹانے کے فیصلے سے پہلے ان سے مشورہ نہیں کیا گیا بلکہ عطا تارڑ نے شہباز شریف کو فون کرکے بتایا کہ ہائی کمان نے کہا ہے کہ آپ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیرمین اور پارلیمانی لیڈرکے طور پر بھرپور انداز میں وقت نہیں دے پارہے اور اس کےمعتدد اجلاس کی صدارت نہیں کرسکے ۔ ایسی صورت میں پارٹی کے پاس دوسرا راستہ نہیں ۔ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ٹھیک ہے انہیں تبدیل کردیا جائے کیونکہ وہ ابھی لندن میں علاج کروانا چاہتے ہیں جس میں ابھی مزید وقت لگے گا اور پتہ نہیں کتنی مدت لندن میں قیام کرنا پڑے۔

عطا تارڑ سے فون کروانے کا مقصد ہی شہباز شریف کو بلاواسطہ یہ بتانا تھا کہ ان کو اہم عہدوں سے فارغ کرنے کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔ پھر شہباز شریف خودبھی سمجھ دار آدمی ہیں پھر ان کے سامنے یہی تھا ‘‘مرتا کیا نہ کرتا’’ انہوں نے بادل نخواستہ پارٹی کا فیصلہ قبول کر لیا اور پھر منصوبہ بندی کے تحت نواز شریف کے سب سے قریبی دوستوں رانا تنویر کا نام پبلک اکاونٹس کمیٹی کے لیے جبکہ خواجہ آصف کا نام قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کے طور پر نامزد کر دیا۔

اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کی کمان دے دی گئی ہے۔ مریم کی مدد کے لیے نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد رہنما شاید خاقان عباسی کو سینئر ترین عہدہ دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے خلاف نہیں جاسکتے۔ وہ نواز شریف کی مخالفت یا کسی طرح کے اختلاف رائے کو مسلم لیگ کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہائی کمان کا حکم قبول کرلیا۔

پچھلے دنوں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ میاں برادران کی اہم حلقوں سے ڈیل کی بات چل رہی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی طرح کی نرمی نہیں کی جائے گی اور میاں صاحبان کو نہ ڈیل ملے گی نہ ہی ڈھیل۔ ،ذرائع کہتے ہیں کہ کاروباری شخصیت ناصر جنجوعہ،شجاعت عظیم سمیت مزید دو شخصیات نے کچھ غیر سیاسی قوتوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن اب تک کوئی صورت نہیں نکل سکی۔ ن لیگ کے اہم رہنماوں کا خیال تھا کہ اگر سپریم کورٹ سے رعایت مل گئی تو شہباز شریف اپنے بھائی کا لندن میں استقبال کریں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف پاکستان آنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے رفقاء کار سے مشورے کررہے ہیں۔ تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ انہیں فوری پاکستان واپس لوٹ جانا چائیے یا نہیں۔ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے وکلاء کی رائے بھی یہی ہے کہ ان کا عدالت کے سامنے پیش ہونا لازمی ہے لہذا ان کو پاکستان واپس آ جانا چائیے، اگر وہ عدلت میں پیش نہیں ہوئے تو عدالت کی جانب سے مفرور قرار دینے کی صورت میں وہ مشکل میں آسکتے ہیں۔ ان کے اس اقدام سے حکومت کو شہباز شریف کا نام دوبارہ ای سی ایل میں شامل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اس طرح شہباز شریف کا ملک سے باہر جانا ایک مسئلہ بن جائے گا۔ شہباز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کی تاریخ بھی قریب ہے ساتھ ہی نیب نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کیس میں انہیں طلب کیا ہوا ہے۔

معتبر ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز شریف پاکستان آکر بجٹ سیشن میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں اگر بجٹ سیشن میں شرکت نہ کی تو مخالفین کہیں گے کہ اپوزیشن لیڈر ہی غائب ہے اور وہ یہ سننا نہیں چاہتے شہباز شریف کے انتہائی قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کی قوی امید ہے کہ شہباز شریف کا 10 روز میں پاکستان واپس آکر بجٹ اجلاس میں شریک ہوں گے۔  


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔