بلاگ

اک عہد ختم ہوا میرے عہد کے لوگو !

ادریس بختیار کی سادگی، مسکراتا چہرہ، شائستہ انداز گفتگو، تحمل مزاجی اور متوازن خبر نے صحافت کو بڑا مضبوط کیا۔ فوٹو: فائل

ادریس بختیار کا شمار ان سینئر ترین صحافیوں میں ہوتا تھا جن پر اصل میں صحافت کی تعریف مکمل ہوجاتی ہے، بحیثیت صحافی میں نے انہیں ایک حساس طبیعت، زمانہ شناس اور الفاظ کے محتاط استعمال کے ساتھ متحرک عامل صحافی پایا۔

اپنے زمانہ طالب علمی میں پاکستان کی سیاست اور کراچی میں کئی پُر آشوب ادوار میں بی بی سی اردو پر ان کی رپورٹنگ نے مجھے خاصہ متاثر کیا، کراچی میں پر تشدد ہڑتالوں، ہنگاموں، فورسز کے آپریشن اور کرفیو کی صورت حال میں بی بی سی کا سیربین شروع ہوتا تو میں یہ دیکھتا کہ گلی محلوں میں بزرگ نوجوان بی بی سی پر ادریس بختیار کی خبروں اور تجزیوں کو بہت غور سے سنتے اور اس کی بنیاد پر بحث کرتے۔

سیربین کا انتظار اور اس سے پہلے لوگوں کے تبصرے اب بھی میں نہیں بھولتا، پچاس سال سے زائد صحافتی دور میں ملکی سیاست کے نشیب و فراز اور حالات حاضرہ پر مرحوم ادریس بختیار کی گرفت بہت مضبوط رہی۔

میں نے صحافت کو اپنایا تو وہ ایک جنون کا نام تھا، صحافتی جنون کو میں نے ادریس بختیار اور ان کے ساتھ اور ان سے پہلے کے سینئر صحافیوں میں بڑا مضبوط پایا اور یہ محسوس کیا کہ دور جدید میں ہوتی کمرشل یا کارپوریٹ سیکٹر کے زیر اثر صحافت ان باکردار صحافیوں پر اثر انداز نہ ہوسکی، ان کی سادگی، مسکراتا چہرہ، شائستہ انداز گفتگو، تحمل مزاجی اور متوازن خبر نے صحافت کو بڑا مضبوط کیا۔

کراچی پریس کلب میں ادریس صاحب سے ملاقاتیں رہتی تھیں لیکن جب انہوں جیو نیوز جوائن کیا تو ان سے قربت حاصل ہوئی، کبھی ان کے کمرے میں جاکر بیٹھ جاتا زیادہ تر موضوع موجودہ سیاسی حالات اور خطے سے متعلق امور زیر بحث آتے اور اسی دوران رپورٹنگ میں خامیوں اور صحافتی تربیت پر تفصیلی بات ہوا کرتی، کبھی وہ میری نشست کے سامنے اپنی ڈیسک پر سینئر صحافیوں مجدد شیخ، مظہر عباس، حسن جاوید اور قیصر محمود کے ساتھ آ بیٹھتے، ان سینئرز کی گفتگو سے بھی ہم طفل مکتب کئی نئی معلومات اور اپنی اصلاح کے موتی چن لیا کرتے تھے۔

ادریس بختیار سگریٹ پیتے ہوئے بات چیت کے دوران اکثر اپنی رپورٹنگ کے دوران گزرے حالات کا تذکرہ بھی کرتے اور موجودہ حالات میں صحافت پر قدغن اور خرابیوں پر افسوس کا اظہار بھی کرتے، کراچی پریس کلب میں چند ہفتوں قبل ایک ملاقات میں انہیں بہت زیادہ شاکی پایا، کبھی اپنے معاملات پر بات نہ کرنے والے ادریس بختیار نے یہ بات کہی کہ صحافتی جنون میں مبتلا نوجوانوں کو کیسے یقین دلائیں کہ یہ ادارے ان کی عزت نفس مجروح نہیں کریں گے۔ 

ادریس بختیار وہ نام ہے جو اردو اور انگریزی اخبارات کی رپورٹنگ، نیوز ایجنسی، غیر ملکی میڈیا میں اپنی صحافتی غیر جانبداری اور مضبوط کردار کی بناء پر اس جنون میں مبتلا ہونے والوں کے لئے مشعل راہ رہے۔

جواد نذیر پھر معصوم عثمانی اور اب ادریس بختیار بھی کوچ کر گئے اور اب بہت سے سینئرز اور ساتھیوں کو دل و دماغ سے صحافت پر قدغن، معاشی حالات اور دباؤ قبول نہ کرنے پر خرابی صحت کی طرف جاتا دیکھ رہا ہوں لیکن ایک عہد تمام ہوا چاہتا ہے اور صحافت کا زوال دیکھ کر یہ سوچ پیدا ہورہی ہےکہ کیا اب ہمیں یہ جنون چھوڑنا ہوگا یا نڈر اور ایماندارانہ صحافت کو بچانے کےلئے دوسرے راستے اختیار کرنے ہوں گے تاکہ باکردار اور خوددار صحافی کسی کے رحم و کرم اور غلامانہ انداز میں حکم کی بجا آوری سے بچ کر آزادانہ صحافت کرسکے اور کوئی صحافت کا سودا کرنے کی جرات نہ کرسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔