ہم نے مقابلہ نہ کرنا سیکھ لیا ہے

—فوٹو اے ایف پی

اور آخرکار ہم انڈیا سے بھی ہار گئے۔ایسا نہیں کہ یہ کوئی انہونی یا اپ سیٹ ہے، بس بطور پاکستانی کرکٹ فین اور پاک انڈیا کرکٹ مقابلوں کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہار اور اس کی وجوہات کوشش کے باوجود مدتوں ہمارے ننھے سے دماغ سے نہ نکل سکیں گی۔ ہم ورلڈ کپ میں انڈیا سے کبھی نہیں جیتے اور اس بار بھی آثار و قرائن جمع جملہ ماہرین اسی حادثے کی خبر دے رہے تھے۔

لیکن دل ناداں تھا کہ یہ ماننے کو قطعی تیار نہ تھا۔میچ سے پہلے موسم نے خوب ڈرایا، یار لوگوں نے کہا کہ بارش ہی ہو جائے تو بہتر ہے لیکن ہم نے ضد کی کہ ورلڈ کپ کا مزہ تو انڈیا پاکستان کے میچ میں ہے، بارش کا ایک پوائنٹ مفت میں لینا کوئیجو انمردی نہیں۔ کتنے غلط تھے نہ ہم۔۔۔

بھائی بات کچھ بھی ہو، ہمارا ڈومیسٹک انفرااسٹرکچر جتنا بھی برا ہو، اس میں سالانہ کی بنیاد پر کتنی ہی اکھاڑ پچھاڑ ہو، پی سی بی کیسا بھی ہو، کرکٹ ہمارے میدانوں سے کتنی دور ہو، ہماری پچزمیں کتنی ہی گڑبڑ ہو، ٹیم میں آپسی مسئلے ہی مسئلے ہوں، ہمیں ورلڈکپ جیسے مقابلوں میں اپنے لڑکوں سے جان لڑا دینے کی ہمیشہ ہی امید رہی ہے اور اب ادھیڑ عمری کے دورپردستک دیتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرکٹ کے میدان یا ٹی وی کے سامنے بیتے اچھے لمحات ہماری عمر کا حاصل ہیں اور ہم اب بھی اس سے پیچھے ہٹنے کو قطعاتیار نہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی انڈیا پاکستان کے میچ کی جس میں ہمارے موجودہ کپتان نے ٹاس جیت کر ایک سابق اوربڑے کپتان کا مشورہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے انڈیا کو بیٹنگ دیدی۔ دل تو چاہا کہ اس پر اپنا سر پیٹ لیں لیکن جب کوہلی نے بھی ٹاس جیت کر ہمارے ساتھ ایسا ہی کرنے کی بات کی تو ہم خاموش ہو گئے۔ گویا اس میں تو سرفرازکو مارجن دینا بنتا ہے۔ ٹیم میں شاداب اور عماد کی واپسی کی خبر پر بھی دل ذرا دھڑکا۔ دماغ میں یہ خیال آیا کہ شعیب ملک کی گذشتہ بری پرفارمنس، اسپنرز کیخلاف انڈیا کی روایتی اچھی بیٹنگ اور شاہین شاہ آفریدی کا ”ایکس فیکٹر“ٹیم منیجمنٹ کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔

لیکن خیر جناب، عامراور حسن کی گیندوں پرشروع میں اووآہ تو ہوئی لیکن کوئی بڑا چانس دونوں ہی نہ بنا پائے۔ تھوڑی دیر بعد روہت نے پر پرزے نکالنا شروع کیے اور عامر کو تھوڑی عزت دیکر باقی بالرز کی ٹھیک ٹھاک مرمت کی۔ ہماری لائن اور لینتھ، میچ کے آغاز پر آسٹریلیا والے میچ کی طرح کافی گڑ بڑ رہی۔

شارٹ پچ باولنگ، وکٹوں کے دونوں جانب گیندیں اورکسی ایک لائن پر باولنگ نہ کر کے ہم نے انڈین بیٹسمینوں کی مشکل آسان کردی۔وہاب اور شاداب کوئی رنگ نہ جما سکے، عماد نے پھر بھی کچھ بہتر باولنگ کی۔

روہت کا رن آوٹ چھوڑ کر فخر نے جو تحفہ انڈیا کو دیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی فیلڈربنا دیکھے ایسے غلط اینڈ پر تھرو کیسے کرسکتا ہے۔ کے ایل راہول کو چوبیسویں اوور میں ہم نے آوٹ تو کر لیا لیکن کوہلی کے آتے ہی پارٹ ٹائمرز کو گیند تھما دی جس کا انڈیا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ آخری چھبیس اوورز میں تقریباً دو سو اور آخری بارہ اوور میں تقریباً سو رنز بنوا دیئے۔ عامر کے علاوہ کوئی بھی بالر رنگ نہ جما سکا۔حسن اور وہاب اب خود میں دوران ٹورنامنٹ کیا بہتری لائیں گے ہمیں نہیں پتہ۔

آخری ستائیس میچز میں حسن علی کا باولنگ اوسط 48 ہے جبکہ وہاب کے بارے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ وہ کچھ دن قبل تک ٹیم مینجمنٹ کے ورلڈکپ پلان میں شامل ہی نہ تھے۔ خیرانڈیا کیخلاف اس اننگز میں پاکستان کوچھ چھکے اور اٹھائیس چوکے لگے۔ فیلڈنگ میں بھی ٹیم گرین کے کھلاڑی کپتان سمیت کافی بجھے بجھے نظر آئے۔

خیر یہ تو ہمیشہ ہو نہیں سکتا کہ ہم ہر بار پہلی بیٹنگ کریں۔ دوسری بیٹنگ بھی کرنا ہو گی اور اگر کوئی ناگہانی نہ ہوئی تو مخالف ٹیم کچھ رنز بھی بنا لیگی۔ جو جواباً ہمیں بنانا ہوں گے۔اب یہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔انڈیا کیخلاف ہم نے محتاط لیکن بہتر آغاز کیا۔

بھونیشور کمار کو انجری کی وجہ سے میدان سے جاتے دیکھ مزید ڈھارس ہوئی لیکن اس کے بعد ڈھیلے ڈھالے سے وجے شنکر نے جو کیا اسے دیکھ کر کم از کم ہم نے تو اپنی انگلیاں منہ میں داب لیں۔ اس کے بعد فخر اور بابر نے جس طرح سے اسکور سو کے پار پہنچایا ہماری امیدیں پھر سے بننا شروع ہو گئیں۔ دونوں نے کافی اچھے اسٹروک کھیلے اور انڈین ٹیم تھوڑا پریشان نظر آنے لگی۔

یہ وہ موقع تھا جب ہم اپنے ایک کام سے ٹی والے کمرے سے خوش خوش باہر نکلے اور دو تین فون کالز اور ای میل کر کے واپس دوبارہ ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ ٹی وی پر نظر پڑی تو یقین نہ آیا۔ ہم نے آنکھیں بارہا صاف کیں، ٹی وی بند کر کے دوبارہ کھولا اور اسکور دکھانے والی ویب سائٹ بھی چیک کی۔ چند منٹوں میں ہماری تو دنیا ہی لٹ چکی تھی۔

محض چار اوورز کے اندر پاکستان کے 4 بہترین کھلاڑی واپس پویلین میں جا چکے تھے۔ ہائی لائٹس چیک کیں تو پتہ چلا پہلے بابر نے کلدیپ کی بہترین گیند پر ساتھ چھوڑاپھر اپنے اگلے اوور میں کلدیپ نے فخر کو چکما دے ڈالا۔ پھر اگلے اوور میں پانڈیا نے دو گیندوں پر حفیظ اور ملک کی وکٹیں لے لیں۔ہم نے گھبرا کر ٹی وی بند کردیا۔ اس کے بعد میچ میں ویسے کچھ باقی بچا بھی نہ تھا۔باقی تو چھوڑیں حفیظ اور ملک کو کس امید پر اس ٹورنامنٹ کیلئے ٹیم میں شامل کیا گیایہ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔ اور تو اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ شعیب ملک کی جانب سے کب کوئی قابل ذکر پرفارمنس سامنے آئے گی۔ گذشتہ تیس ون ڈے اننگز میں وہ محض 25 کی اوسط سے 608 رنز بنا پائے ہیں، اور 67 کی اوسط سے صرف 4 وکٹیں لی ہیں۔

ماہرین کے بقول سرفراز بطور بیٹسمین اور کپتان اپنارنگ نہیں جما پا رہے جبکہ ہماری بیٹنگ کا ٹاپ آرڈر باوجود امام، فخر اور بابر کے زبردست بیٹنگ اوسط کے وہ کارکردگی نہیں دکھا پا رہا جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ کوچ، کپتان اور سلیکٹرز کی جانب سے ان کھلاڑیوں کی ہمیشہ ہمت افزائی کی گئی ہے لیکن بطور کھلاڑی ان میں میچ فنش کرنے یا تسلسل کے ساتھ مضبوط بنیاد کرنے کی استعداد اب تک پیدا نہیں ہو سکی۔

دوسری جانب مڈل آرڈر کی ریڑھ کی ہڈی، حفیظ اور ملک کے تجربے کا کسی کو کوئی فائدہ ہوتا نہیں نظر آ رہااور تو اور ہمیں اب تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ ہماری سب سے بہترین الیون کیا ہے۔ سرفراز میچز کے بعد باؤلنگ کی جانب سے زیادہ رن دینے کی بات تو کرتے ہیں لیکن انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بہرحال بیٹسمینوں کو بھی ذمہ داری لینا ہو گی اور آج کے دور میں تین سو رنز کا پیچھا کرتے ہوئے میچ جتانا ہوں گے۔

ہم بہرحال کافی جذباتی قوم ہیں۔ انڈیا سے ہار کے بعد ٹیم پر ہر طرح کے الزامات کی بھرمار ہے جو شاید ضرورت سے کافی زیادہ ہیں لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ ٹیم کی اب تک کی کارکردگی اس کے شایان شان نہیں۔ پاکستان کرکٹ میں بہت طرح کے مسائل ہیں جس کے باعث ہم عالمی کرکٹ میں کافی نچلی سطح پر کھڑے ہیں لیکن بڑے ٹورنامنٹ کے بڑے میچز میں اچھی پوزیشن ہوتے ہوئے ہار جانا اور کچھ میچز میں کسی طرح کا مقابلہ ہی نہ کرنا بہرحال ناقابل قبول ہے۔

ابھی ورلڈ کپ کے کچھ مقابلے باقی ہیں،گذشتہ کارکردگی کو دیکھیں تو پاکستان کیلئے اس ٹورنامنٹ میں اب زیادہ گنجائش نظر نہیں آرہی لیکن پھر بھی امید کرتے ہیں کہ پاکستان اگلے میچز میں جیت حاصل کرتے ہوئے دوسری ٹیموں کے “اگرمگر” کے سہارے کم از کم سیمی فائنل میں تو جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اگر ایسا ہو گیا تو بھی ہماری ٹیم اور پاکستان کرکٹ کو بہتری کی ضرورت تو رہے گی لیکن کم از کم ہمارے گرتے آنسو کچھ لمحے کیلئے ٹھہر جائیں گے۔لیکن اگر ہم سیمی فائنل میں بھی نہ پہنچے تو، اس سے زیادہ سوچنے کی ہم میں ابھی بالکل بھی سکت نہیں۔

مزید خبریں :