سیاسی کشیدگی نے پاکستان اور افغانستان کرکٹ میچ کی رقابت میں بھی اضافہ کردیا

بنگلہ دیش کی طرح افغانستان کرکٹ کے بھی قدم جمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششیں شامل رہی ہیں — فوٹو: آئی سی سی 

لیڈز: سیاسی کشیدگی نے پاکستان اور افغانستان کرکٹ میچ کی رقابت میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ 

بنگلہ دیش کی طرح افغانستان کرکٹ کے بھی قدم جمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششیں شامل رہی ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ متعدد بار افغان ٹیم کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیتا رہا ہے لیکن جس طرح بنگلہ دیش سیکیورٹی کو جواز بنا کر پاکستان اپنی ٹیم بھیجنے سے انکار کرتا رہا ہے، بالکل اسی طرح افغانستان کی ٹیم بھی ابھی تک پاکستان کا دورہ نہیں کر پائی ہے۔

پشاور کی افغان خیمہ بستیوں میں پیدا ہونے والے اور وہاں کرکٹ شروع کرنے والے کرکٹر اِس وقت افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہیں لیکن اب وہی کرکٹرز پاکستانی کرکٹ ٹیم کو چیلنج کررہے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ورلڈ کپ میچ سے قبل ہیڈنگلے گراؤنڈ کے باہر مناظر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں پاکستان اور بھارت کا میچ ہورہا ہے۔ افغان نوجوان میچ سے قبل گاڑیوں پر سوار نعرے بازی کررہے تھے۔

یاد رہے کہ افغانستان کی قومی ٹیم کی کوچنگ کرنے والوں میں پاکستان کے دو سابق کپتان انضمام الحق، راشد لطیف اور ماضی کے فاسٹ بولر کبیر خان بھی شامل ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان نے جس انداز سے کرکٹ میں ترقی کی منازل طے کی ہیں، وہ مثالی ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ افغان کرکٹ پاکستان میں قائم جلوزئی، کچہ کارا اور دیگر کیمپوں میں پروان چڑھی ہے۔

یہ اور بات ہے کہ آج افغان کرکٹرز پاکستان میں اپنے قیام کا ذ کر کرتے ہوئے کچھ کتراتے ہیں۔ کئی کھلاڑیوں نے اپنی کرکٹ پشاور میں شروع کی بعد ازاں وہ افغانستان منتقل ہوگئے لیکن وہ مستقل پاکستان آکر کھیلتے رہے۔

راشد خان، محمد نبی اور محمد شہزاد کے علاوہ کئی کرکٹرز نے پاکستان کی مختلف ریجن اور ڈپارٹمنٹ کے لیے کرکٹ کھیلی اور کچھ کرکٹرز پشاور اور کراچی کے ٹورنامنٹس اور لیگز میں شرکت کرتے رہے ہیں۔

لیڈز میں پریس کانفرنس میں افغانستان کی ٹیم کے کپتان گلبدین نائب سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے ساتھ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ورلڈ کپ کے میچ کو کس طرح دیکھ رہے ہیں، جس پر انہوں نے جذباتی بیان دینے کے بجائے یہی کہا کہ ہم پاکستان سمیت دیگر پڑوسی ملکوں سے کرکٹ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔

اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم بنگلہ دیش اور افغانستان کے مدِمقابل آتی ہے تو جذبات کی شدت اور ماحول کی گرمی پاک بھارت کرکٹ کی طرح نہ سہی لیکن کچھ کم بھی نہیں ہوا کرتی۔

دراصل یہ رقابت کھیل سے زیادہ سیاسی پسِ منظر رکھتی ہے اور ہیڈنگلے گراؤنڈ کے باہر میچ سے قبل مناظر دیکھ کر لگ رہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کا میچ ہورہا ہے۔

افغان کرکٹ بورڈ کے عبوری چیف ایگزیکٹیو آفیسر اسد اللہ خان کے حالیہ ٹی وی انٹرویو کو پاکستانی کرکٹ حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت کرکٹ میں پاکستان سے کئی اعتبار سے بہتر ہے اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی کرکٹ کی بہتری کے لیے افغانستان کی مدد حاصل کرے۔

اس بارے میں حارث سہیل سے میچ سے قبل پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے بورڈ کے معاملات کا علم نہیں ہے۔

مزید خبریں :