12 جولائی ، 2019
کوئی دو دہائیوں پہلے کی بات ہے۔ وہ اکثر پوچھتے تھے،”کیوں میاں، آخری بار سِتار کب بجایا؟” اور پھر انتہائی انکساری کے عالم میں خود اپنا ستار بجانے کے کسی پرانے یا نئے واقعے کا ذکر شروع کردیتے۔ وہ بتاتے تھے کہ کون سا “سِتار” صحیح طرح کیسے “بجایا” جاتاہے۔ بقول ان کے، اُنہیں ہر طرح کے ستار کی پہچان تھی اور بجانے کے مختلف انداز پر بھی مہارت حاصل تھی۔
کبھی تو یہاں تک تجویز کرجاتے تھے کہ ہمارے آس پاس موجود یا مشترکہ جاننے والوں میں کس کے لئے کون سا سِتار موزوں ہو سکتا ہے۔ خاص بات یہ کہ اُس دور میں انہوں نے جن جن کے لئے خاص خاص سِتار تجویز کئے تھے، ان میں عمران اسلم اور مولانا عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات کے نام شامل تھے۔
ایک بار میں نے پوچھا کہ سِتار سے ہٹ کر بھی تو سوچا جاسکتا ہے؛ جیسے پیانو، الیکٹرک گٹار ، طبلہ، سارنگی، ڈرمز؟ تو ان کا جواب تھا،”یار پوری زندگی سِتار تو صحیح طرح قابو میں آ نہیں سکا، باقی آلات کیسے بجاؤں گا۔”
میں نے 2001 میں دی نیوز اخبار چھوڑا تو خود بخود ان سے رپورٹرز اور نیوز روم میں متواتر ہونے والی ملاقاتوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کچھ تکلف بھی کرنے لگے تھے۔ اب سوچتا ہوں کہ ان سے چند مزید نشستیں ہوسکتی تھیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ وہ الرحمن بلڈنگ سے نکلتے ہوئے نظر آئے ، تو میں نے بلند آواز میں پوچھا، “دتّہ صاحب، آج کل کون سا سِتار بجا رہے ہیں ؟” اِس پر پہلے تو وہ بے ساختہ ہنس پڑے اور پھر فورا ہی لہجے کو نسبتا اداس کر کے بولے،”میاں اب ستار بجانا پہلے جتنا آسان نہیں رہا۔ پھر انگریزی میں بولے،
“... See Nusrat, there have been certain serious reasons. I can explain it to you gentleman, if you spare sometime and have a cup of tea with me.”
لیکن اس کا موقع نہ مل سکا اور چند روز پہلے دتّہ صاحب کے دنیا سے چلے جانے خبر ملی۔ سوچ رہا ہوں کہ شاید اب میں دنیا میں اکیلا آدمی ہوں جسے ستار بجانے کے “صحیح” مفہوم کا علم ہے۔
ایک بار کسی نے نشاندہی کی کہ آپ اور دتہ صاحب کی گفتگو اگرچہ بہت دلچسپ ہوتی ہے لیکن سِتار بجانے کے معاملے پر آپ ان کے ہر سوال کا جواب گول کر جاتے ہیں، جب کہ وہ خود اپنے “ستار” اور اس کو “بجانے” سے متعلق اپنی محاورات اور تشبیحات سے بھرپور داستانیں انتہائی روانی کے ساتھ سنا ڈالتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اُس وقت اس نشاندہی پر کس رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ لیکن میں اب یہ حقیقت بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ میرے اور دتہ صاحب کے درمیان اِس متواتر مکالمے کے انتہائی خاص تناظر میں درحقیقت، اظہار کا تبادلہ موضوع اور حقائق سے زیادہ اہم معاملہ تھا؛ اور اس مکالمے میں دتہ صاحب کی جانب سے یکطرفہ طور پر فن گفتار کا کمال مظاہرہ کیا جاتا تھا اور شاید مقصدیت کے اعتبار سے یہی جزو اس تبادلے کا زیادہ اہم پہلو بھی تھا۔
یہ معاملہ دراصل میرے اور ان کے درمیان کسی مشترکہ شوق یا دلچسپی سے متعلق نہیں تھا بلکہ میری نظر میں دتّہ صاحب کی جانب سے یہ طرزِ گفتگو سے جڑے کسی خاص قسم کے پرفامنگ آرٹ کا شاندار مظاہرہ ہوا کرتا تھا۔
وہ اکثر کریدنے کے انداز میں مخاطب ہوا کرتے تھے؛ لیکن لفظوں کا چناؤ اور انداز میں ٹھہراو قابل رشک ہوا کرتا تھا۔ عام تاثر تھا کہ دتّہ صاحب اپنی تمام تر قابلیت اور انگریزی زبان پر مہارت کے باجود، اردو میں نسبتا کمزور ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اردو بولتے ہوئے لفظوں کے چناؤ اور ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کے لب و لہجے میں شُستگی اور شگفتگی سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
وہ ایک دانشور تھے اور انگریزی و اردو زبانوں کی علیحدہ علیحدہ حیثیتوں اور چاشنی سے بخوبی واقف تھے۔ کتابیں پڑھنے والے صحافی تھے اور چیدہ چیدہ کتابیں پڑھوا بھی دیا کرتے تھے۔ عام طور پر بات چیت میں مختلف تصانیف کے حوالے دیا کرتے تھے۔ البتہ خاص موڈ میں ہوتے تو گفتگو کے تمام تر فلسفے میں ان کے لئے موضوع، معروضیت، اِصلاح اور حقائق کے بجائے، فن، کرافٹ (ہنرمندی)، محاورے، تشبیح، رومانویت اور تخیل کی اہمیت کہیں زیادہ ہوجایا کرتی تھی۔
خاص طور پر ہمارے جیسے غیر مہذب معاشروں میں مردوں کی طرز زندگی اور طرز گفتگو میں یہ بات عام ہے کہ جس شے سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہو، وہ بھی گفتگو میں اس طرح شامل ہو جاتی ہے گویا زندگی کا اہم ترین حصہ ہو۔ اس معاملے میں خاص طور ہر ہمارے ہاں ماچوازم سے جڑے رویوں اور خیالات کو خاصی اہمیت حاصل رہتی ہے۔ مثلاً سینے کی چوڑائی، کلائی کی مضبوطی، قد کی اونچائی، آواز میں مردانگی اور کشش، دولت کی فراوانی، آمدنی، علم و قابلیت، انا، فتح، برتری، دشمن کی کمزوریاں، مخالف کا چھوٹا پن وغیرہ وغیرہ، مردوں کے خاص موضوعات ہیں، اور کم و بیش ہر مرد اپنی حیثیت اور اوقات کے حساب سے ان معاملات میں ڈینگے ضرور مارتا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ دو مردوں کے درمیان یہ تک ممکن ہوسکتا ہے کہ دونوں شرابی نہ ہوتے ہوئے بھی شراب، اس کی افادیت اور اقسام پر گھنٹوں گفتگو کرتے رہیں اور اس پر اپنی اپنی سطح پر ایک انتہائی فضول سا فخر اور بے کار سی خوشی بھی محسوس کرتے رہیں۔ لیکن دَتّہ صاحب کا معاملہ انتہائی مختلف تھا۔ کسی ماچوازم یا غرور کا تو دور سے بھی واسطہ نہیں تھا۔ انکساری مزاج کا حصہ تھی؛ ہر جگہ نہیں بولتے تھے اور زیادہ نہیں بولتے تھے۔ لیکن جب بولتے تھے، کمال بولتے تھے۔
انگزیزی کی تحریر و تقریر میں مہارت قابل رشک تھی۔ انگریزی اخبار میں رپورٹنگ کے دور میں روزمرہ کی اسٹوریز اور مضامین کی ایڈیٹنگ کرتے، تو کچھ نہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ضرور مل جاتا۔ مسائل کے باجود خوش رہتے تھے، اور خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوش اخلاق بھی تھے لیکن کم گو ہونے، اور اپنے ہی اندر گم سم رہنے کے سبب عام لوگوں کو بہت دیر سے اس حقیقت کا اندازہ ہوپاتا تھا، لیکن ان کو بظاہر اس کی کوئی فکر بھی نہیں تھی۔
کبھی ذاتی زندگی پر بات نہیں ہوئی لیکن تنہائی ان کی زندگی اور شخصیت پر ہمیشہ غالب نظر آئی۔ دفتر میں سارا دن خاموشی سے دوسروں کی لکھی غلط اور کمزور انگریزی ٹھیک کرتے رہتے تھے بلکہ بہت بار تو کاپی میں چار چاند لگادیا کرتے تھے۔ کسی خاص خیال یا صورتحال کو بیان کرنے کے لیے موزوں ترین انگزیز ی لفظ یا تاثر دتّہ صاحب کی جانب سے ہی آیا کرتے تھے۔ انگزیزی کے معاملے میں لگتا تھا گویا زبان کی درستی کے لئے ان کو کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ اُدھر سوال ہوا، اور اِدھر جواب آیا۔ اور وہ بھی موزوں ترین جواب۔
پریس کلب میں بھی عموماً کسی تنہا گوشے میں، کسی الگ تھلگ تنہا کرسی پر یا کھانے کی میز پر اکیلے ہی بیٹھے نظر آتے تھے؛ یا چند خاص لوگوں سے، کوئی خاص اور مختصر سی بات کرکے چلے جاتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ مجمع خود ان کو پسند تھا، نہ ہی وہ خود کسی مجمعے میں جچ سکتے تھے۔ گزشتہ بیس برسوں میں انہیں پریس کلب سے دی نیوز کے دفتر کے راستے میں بارہا پیدل چلتے دیکھا۔ وہ جاننے والوں کو کار میں گزرتا دیکھ کر بھی، دفتر یا پریس کلب تک لفٹ نہیں مانگتے تھے۔ ایک بار جب ان سے درخواست کی کہ وہ رکنے کے لئے ہاتھ ہلا دیا کریں، تو وہ جواب میں مسکرا کر مکیش کا ایک گیت گانے لگے، اور گیت کی لائن، “نہ ہاتھی ہے، نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے،” گنگناتے ہوئے ان کی آواز قدر بلند ہوگئی۔ یہی گانا گاتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھتے اپنے دفتر چلے گئے، کوئی جواب دیے بغیر۔
مجھے بارہا محسوس ہوا کہ انہوں نے زیادہ تر نئے اور پرانے مغربی، ہندوستانی اور پاکستانی گیت سنے ہوئے ہیں۔ بہت بار نغمہ نگاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں پر بھی ان کو خیالات کا اظہار کرتے سنا، لیکن ان موضوعات پر کبھی ان سے سیر حاصل گفتگو نہیں ہوسکی۔
انیل دتہ اور میرے درمیان “ستار” اور اس کو “بجانے” سے متعلق مکالموں کا دورانیہ عموما مختصر ہوا کرتا تھا لیکن یہ گفتگو تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد وقوع پذیر ضرور ہوا کرتی تھی۔ چند ساتھیوں اور دوستوں کے خیالات و تصورات کے برعکس، در اصل ستار اور ستار بجانے کے معاملے کا تعلق، واقعتا کسی بھی قسم کے عیش و عشرت، عشق یا کسی کے ساتھ خفیہ تعلقات سے نہیں تھا۔
میرا خیال ہے کہ ان کی یہ تمام تر گفتگو دراصل دو مردوں کے درمیان برتری کے اظہار کے دقیانوسی اور کرخت تبادلوں کی روایت سے بغاوت کا ایک انتہائی لطیف انداز تھا۔ اُن کا شگفتہ انداز تخاطب، بالواسطہ تبادلہ خیال کا انوکھا لیکن کامیاب طریقہ اور ذہن کی تخلیقی وسعت کا غیر معمولی مظاہرہ، بلا شبہ کسی بھی شخص کے لئے قابل رشک تھا۔
یعنی قرار یہ پایا کہ سِتار اور اس کو بجانے کے مفہوم کا بنیادی تعلق، معروضیت کے مقابلے میں محاوراتی، الف لیلوی اور تخیلاتی دنیا سے ہوتا تھا، اور گفتگو کا یہ تمام تر سلسلہ حقائق جاننے یا بیان کرنے کے فلسفوں کے بجائے تخلیقی عمل میں جنم لینے والے خیالات کے اظہار، فن خطابت اور شائستگی سے زیادہ نسبت رکھتا تھا۔
انیل دتّہ صاحب کے خیالات سن کر اور ان کا انداز گفتگو دیکھ کر بارہا یہ خیال آیا کہ شاید اپنی تخیلاتی دنیا میں ان گنت کائنات بساتے رہنے کی اِسی توانا صلاحیت کے سبب، حقیقی دنیا کے چند حصوں پر مرد کی ناجائز اجارہ داری، آج بھی قائم ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔