بلاگ
Time 23 جولائی ، 2019

ٹرمپ، عمران مکالمہ: سفارتی نقطہ نظر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعوی بظاہر انتہائی حیران کن ہے کہ مسئلہ کشمیر پر نریندر مودی نے ان سے پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔

کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات و معاملات پر، ہندوستان کی روایتی پالیسی کے مطابق، دونوں ملکوں کے درمیان صرف دو طرفہ سطح پر ہی بات چیت ہوسکتی ہے۔ لہذا اگر ٹرمپ کی یہ بات سچ ہے تو بھارت کی جانب سے یہ ایک انقلابی اور مثبت قلابازی ثابت ہوگی۔

دوسری بات یہ کہ سفارت کاری کے بنیادی اصولوں کے تحت ثالثی کی درخواست وہی ملک کرسکتا ہے، جو مذاکرات کے عمل میں خود رکاوٹ نہ بن رہا ہو۔ لہذا پاکستان سے متعلق گزشتہ چند سالوں میں نریندر مودی کے رویے کے تناظر میں، اُن سے ایسے کسی مثبت رویے کی فی الحال توقع کرنا، بعید از قیاس ہے۔ بلکہ اس معاملے پر ٹرمپ کی یہ غیر سنجیدگی کسی حد تک تشویشناک بھی قرار دی جاسکتی ہے۔

البتہ امریکی صدر نے گفتگو کے دوران پاکستان کی جانب سے امریکا کی عزت نہ کرنے والی بات کو “ماضی” سے جوڑ کر، پاک امریکا دوطرفہ سفارتی معاملات کو واضح طور پر آگے بڑھانے کے لیے بہت مثبت اشارہ دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اقتصادی پابندیوں کو بھی “گزشتہ دور” سے جوڑ کر، امریکی صدر نے مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات اور باہمی تعاون کے امکانات روشن کئے ہیں۔ عجب یہ کہ بیشتر تجزیہ کار ان اہم نکات کو نہ جانے کیوں مستقل نظر انداز کررہے ہیں۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ دیگر ری پبلکن صدور کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پارٹی کی روایتی اور انتہائی طاقتور اسٹیبلشمنٹ (GoP) کے زیر اثر رہنے والے آدمی نہیں ہیں، شاید اسی لیے ابتدا میں پاکستان کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کرنے کے باجود، ٹرمپ نے افغانستان اور دہشت گردی سے متعلق معاملات پر “Do More” کا روایتی امریکی تاثر اور مطالبہ دہرانے کے بجائے، بظاہر پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعاون پر روز دیا ہے۔

مجموعی طور پر ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے دوران اپنا موڈ، حرکات و سکنات (body language) اور گفتگو کو انتہائی مثبت رکھا۔ یہ واضح تھا کہ یہ ان کی شعوری کو شش ہے کہ گزشتہ دور سے جاری سفارتی خاموشیوں کو توڑ کر دونوں ممالک کے درمیان معاملات کو دور رس حوالوں سے بہتر بنایا جائے۔

ٹرمپ کی انتہائی واضح کوشش تھی کہ وہ پاکستانی وزیراعظم، نیوز میڈیا اور دنیا پر یہ واضح کردیں کہ ان کے لیے پاکستان کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و آتشی کے ساتھ رہنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سفارت کاری میں نا تجربے کار بلکہ نابلد ہونے کے باجود، ٹرمپ نے ملاقات کے دوران اپنا یہ موقف براہ راست کسی بیان کے بجائے، انتہائی مہارت کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم اور عالمی میڈیا پر واضح کردیا ہے۔

پاکستان کے زیادہ تر تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں کے برعکس، فی الحال اس مضمون میں میرے لیے پاکستانی وزیراعظم کے دورہ امریکا اور ان سے ٹرمپ کی ملاقات پر کوئی حتمی یا پیشگی فیصلہ سنا دینا ممکن نہیں، لیکن یہاں کم از کم ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکی صدر نے اس ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان بہتر سفارت کاری اور اقتصادی تعاون کے بند دروازوں کو بے دریغ کھول دیا ہے۔ لہذا پاکستانی وزیر اعظم کا یہ امریکی دورہ، خطے میں امن کے قیام اور درون ملک جاری اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لئے ایک ابتدائی لیکن مثبت پیش رفت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔