03 اگست ، 2019
ماضی میں پاکستانی سیاست کا شمال اور جنوب سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات 2018 کے بعد اتحاد کے نکتے پر یکجا ہونے کا فیصلہ کیا۔ وفاقی سطح پر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے کے عہدوپیماں کیے گئے۔ سابقہ روایتی حریفوں کے اس قریبی تعلق کو ایک سال مکمل ہوگیا۔ نہ تحریک انصاف کی زہرہ شاہد قتل پر الزام تراشیاں آڑے آئیں، نہ حالیہ انتخابات میں متحدہ کے تحفظات، دونوں فریقین نے پہلے قمری اور پھر شمسی سال ہنستے کھیلتے گزار لیا۔
ایم کیوایم اور پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ ان کا یہ اتحاد صرف اور صرف "عوام کے وسیع تر مفاد" میں ہے۔ بالخصوص اس سے کراچی والوں کا "فیضیاب" ہونا مقصود تھا۔ اسی لیے اس کی بنیاد ایک مفاہمتی یادداشت بنی جس پر 3 اگست 2018 کو بنی گالا میں دونوں فریقین کے وفود کی ملاقات کے بعد دستخط ہوئے۔
یہ یادداشت 9 نکات پر مشتمل تھی۔ جس میں،
365 دنوں میں دونوں اتحادیوں کی نصف درجن بیٹھکوں کے باوجود مفاہمتی یادداشت کے کسی ایک مطالبے پر تاحال مکمل عمدرآمد نہیں کیا گیا۔ ماضی میں بات بات پر حکومت سے روٹھ جانے والی ایم کیوایم پاکستان نے اس بار یہ روایت بھی توڑ ڈالی اور ہر مشکل گھڑی میں بلاترددتحریک انصاف کی آواز پر لبیک کہا۔ ایوان زیریں میں عمران خان کے بطور وزیراعظم انتخاب سے لے کر ایوان بالا میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد تک متحدہ نے اپنی حمایت کا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالا۔
لیکن اگلا سال بلدیاتی انتخابات کا سال ہے، کیا کراچی کی کنجی حاصل کرنے کے لیے دونوں جماعتیں بہت جلد ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونگی؟ یا پھر وفاق میں مفاہمت کرنے والے شہر میں بھی مصالحت کا راستہ ڈھونڈ لیں گے؟
فی الحال اس بات کے امکانات کم ہیں۔ کیونکہ دو ہفتے میں کراچی کو کچرے سے صاف کرنے کا علی زیدی کا دعویٰ ہو یا وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے عالمگیر خان کا سیوریج کا پانی پھینکنا، تحریک انصاف شہر میں بلدیاتی انتخابات کی غیراعلانیہ مہم کا آغاز کرچکی ہے۔
حالیہ عام انتخابات میں تحریک انصاف متحدہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اعداد کے لحاظ سے ایم کیوایم کو کراچی میں پیچھے چھوڑچکی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق آئندہ بلدیاتی انتخابات ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کے تعلقات کا "ٹیسٹ کیس" ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔