Time 24 اگست ، 2019
بلاگ

لاشوں کے سوداگر

سوچا تھا کہ دو دن سکون سے گزاروں، دنیا کے جھمیلوں سے دور، جنگل بیابانوں میں، کسی پُرسکون مقام پر جہاں کوئی دکھ ہو نہ کوئی رنج، میں ہوں، میری ذات ہو، میری روح ہو۔ دفتر کی کوئی ذمہ داری ہو نہ ہی سیاست کی منافقانہ چخ چخ۔ کسی کا احتساب ہو نہ انتقام، کتابوں، اخباروں کی دنیا سے دور بس میں اور میرا رب ہو۔

 عیدِ قرباں کے ایام کے بعد یہ موقع میسر آیا، اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کا موقع ملا لیکن ایک احساس، ایک کہانی سائے کی طرح میری ذات کے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی۔ مجھے خود بھی احساس نہیں رہتا کہ میری خوشیوں کے گرد میرے خیالات خاموشی کا حصار کیوں کر لیتے ہیں؟ عرصہ دراز سے کوشش کرتا ہوں کہ بہت سارے دکھوں کو اپنی مصروفیات میں چھپا لوں اور مست رہوں لیکن گوشت پوست کا انسان ہوں، آخر کب تک اپنے آپ کو دھوکا دوں؟

 تنہائی کے پُرسکون لمحات میں اردگرد کے حالات، لوگوں کی دکھ بھری جیتی جاگتی غموں کی داستانیں میرے دل و دماغ سے نکلتی ہی نہیں۔ عید قرباں کے ایام میں جب ساری دنیا ایثار و قربانی کے جذبے سے خوشیاں منا رہی تھی، اچانک میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ یہ میرے عزیز دوست، دیرینہ ساتھی سرفراز مہر کی کال تھی۔ میں نے یہی سوچ کر فون کال ریسیو کی کہ سرفراز نے عید کی مبارکباد دینے کے لئے فون کیا ہوگا۔

 سرفراز ایک جہاندیدہ سلجھا ہوا انسان ہے۔ اللہ نے اسے عزت، شہرت، اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ بڑے دل والا بنایا ہے۔ سلام دعا کے بعد سرفراز بولا سر! مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔ میں نے کہا، حکم کریں۔ بولا:سر! میں عید سے ایک روز قبل سے لاہور کے ایک نجی اسپتال میں ہوں۔ میرا ایک ماہ کا نومولود نواسہ وینٹی لیٹر پر ہے۔ میں گوجرانوالہ کے ڈاکٹروں کے مشورے پر اسے یہاں لایا ہوں مگر یہاں کوئی ڈاکٹر پوچھنے والا نہیں۔

 بالکل بے یارو مددگار ہوں اور علاج بھی بہت مہنگا ہے۔ میں اپنے نواسے کو ایمبولینس میں یہاں لے کر آیا، پہلے تو اسپتال انتظامیہ نے بچے کو داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر منت ترلے اور دیگر حوالوں سے بچے کا داخلہ کروایا۔ باوجود جنرل وارڈ میں سہولت ہونے کے، اسپتال انتظامیہ نے بچے کو پرائیویٹ روم میں داخل کرکے جان بچانے کی خاطر وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا۔

سر! یہاں کوئی پُرسانِ حال نہیں، نہ کوئی ڈاکٹر دیکھنے آیا، نہ کوئی علاج پر توجہ دی جا رہی ہے۔ دو دن میں ایک لاکھ روپے سے زائد وینٹی لیٹر، آکسیجن اور میڈیکل ٹیسٹوں کی شکل میں وصول کر لئے گئے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ سر! آپ کسی سے کہہ کر ان اخراجات میں کچھ کمی کروا دیں، میں یہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ میری یہاں کوئی سننے والا نہیں۔ میں نے اسے تسلی دی، ایک دو دوستوں سے کہا کہ اس معاملے میں کوئی مدد کریں۔

قصہ مختصر باوجود کوشش کے، میں ناکام ہوا اور شرمندگی کے مارے سرفراز سے خود رابطہ کرنے کے بجائے اپنے ایک دوست سے کہا کہ مہربانی فرما کر آپ سرفراز صاحب سے رابطہ کر کے انہیں تسلی دیں اور جو کچھ بھی ممکن ہو، تعاون فرمائیں۔ دو دن بعد میں نے شرمندگی کا احساس مٹانے کیلئے سرفراز کو فون کیا تو اس نے کہا سر! میرا نواسہ اللہ کو پیارا ہوگیا ہے۔

دل بہت رنجیدہ ہوا، اپنی بے بسی پر شرمندہ بھی ہوا اور فون بند کر دیا۔ اگلے دن تنہائی کا سفر محض اس احساس کے ساتھ شروع کیا کہ دو دن ان دکھوں اور غموں سے دور رہوں لیکن یہ کہانی سائے کی طرح میری ہمسفر رہی۔ گزشتہ رات واپسی پر طبیعت شدید بوجھل تھی اور صبح آفس میں آکر ایک بار پھر سرفراز کو فون کیا اور پوچھا کہ مجھے پوری تفصیل سے اپنے نواسے کے علاج کی کہانی سنائو۔ یہ کہانی آپ بھی سنیے۔

سرفراز کے بقول نواسے کو پیدائش کے فوراً بعد ہی یرقان کی شکایت ہو گئی، ڈاکٹروں سے رجوع کیا، کسی نے کہا خون تبدیل کروا لو۔ ایک ڈاکٹر نے انجکشن تجویز کئے۔ ایک انجکشن کی قیمت 8ہزار، دو انجکشن لگوائے طبیعت سنبھل گئی، کچھ دن کے بعد اس کی حالت پھر بگڑنے لگی، ڈاکٹروں نے کہا کہ اسے سانس کی تکلیف ہے، علاج شروع ہوا تو چند دن بعد اس کی جلد خراب ہونا شروع ہو گئی اور سانس کی تکلیف بڑھنے لگی۔ پھر ڈاکٹر سے رجوع کیا تو کہنے لگے نمونیا ہو گیا ہے۔ 

چند دن نمونیا کا علاج کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخر لاہور کے ایک اسپتال ریفر کر دیا گیا، یہاں ڈاکٹروں نے برین بیڈ ایم آر آئی تجویز کی۔ کسی سینئر ڈاکٹر نے بچے کو چیک نہ کیا، صرف میڈیکل اسٹوڈنٹس بچے پر تجربے کرتے رہے، جو بھی آتا نئی ادویات، نئے ٹیسٹ اور نئے مشورے دے کر چلا جاتا۔ 

صورتحال اس حد تک بھیانک تھی کہ بچے کے جسم میں خون نام کی کوئی چیز نہ تھی لیکن پھر بھی یہ نام نہاد مسیحا اس کے جسم میں سرجنوں کی شکل میں سوئیاں چبھوتے رہے اور زبردستی خون نکالنے کی کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ جب خون کے نمونے لیبارٹری میں بھجوائے گئے تو لیبارٹری انچارج نے ان اسٹوڈنٹس کو برا بھلا کہا کہ آپ کو خون کے نمونے بھی لینے نہیں آتے۔ 

آپ کو حیرت ہوگی کہ بچہ مسلسل وینٹی لیٹر پر تھا لیکن ایک سینئر لیڈی ڈاکٹر نے اچانک وینٹی لیٹر اتار دیا جس سے بچے کی حالت بگڑ گئی حتیٰ کہ میڈیکلی وہ اللہ کو پیارا ہو گیا لیکن اس لیڈی ڈاکٹر نے اپنی کوتاہی چھپانے اور دھوکہ دینے کے لئے دوبارہ وینٹی لیٹر لگا دیا اور تقریباً 32گھنٹے تک مردہ جسم کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔

 اس دوران ’مردہ‘ بچے کی آنکھیں کھلی تھیں، ایک ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ ایک انجکشن لگے گا جس سے آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ چونکہ کچھ نہیں معلوم تھا، اسی امید پہ ڈاکٹر کی ہر بات مانتے جا رہے تھے کہ بچہ زندہ ہے اور ٹھیک ہو جائے گا۔ 5600روپے کا انجکشن لگا۔ 

اسی دوران ایک نیک دل انسان نے ہمارے کان میں یہ بات بتا دی کہ آپ ایک لاش پر پیسے لگائے جا رہے ہیں۔ یہ تو کل سے ہی انتقال کر چکا ہے، ڈاکٹروں کی باتوں پر نہ جائیں اور ان سے کہیں کہ وینٹی لیٹر اتار دیں اور جو اللہ کی رضا اسے قبول کریں ،ورنہ یہ نام نہاد مسیحا جو لاشوں کے سوداگر ہیں، آپ سے پیسے بٹورتے رہیں گے۔ ہم نے ہمت حوصلہ کر کے یہ فیصلہ کیا اور وینٹی لیٹر اتروا دیا۔ پانچ دن میں اڑھائی لاکھ روپے لگا کر بھی بچے کو اللہ کے سپرد کر آئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔