27 اگست ، 2019
اقتدار کی رسہ کشی کے کھیل میں حکومت اور اپوزیشن اپنا اپنا سچ بول رہے ہیں، حکومت ماضی کی غلط پالیسیوں بالخصوص سابق حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے باعث پہلے سال کو ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور دوسرے سال کو تعمیر سے تعبیر کرتے ہوئے کامیابیوں کی طویل داستان سنا رہی ہے جبکہ اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کے اس ایک سال کو وہ سونامی قرار دے رہی ہے جو ملک اور عوام کے لئے سوائے تباہی کے کچھ نہیں لایا۔
حکومت نے نئے پاکستان کا ایک سال کے نام سے جاری 82 صفحات پر مبنی کتابچے میں ہر وزارت اور ڈویژن کی کامیابیوں اور اہم اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ ایف بی آر نے جولائی میں 236 ارب کے ہدف کے تحت 234ارب روپے کے محاصل اکٹھے کئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 60فیصد زیادہ ہیں، ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں کی تعداد 62فیصد اضافے کے ساتھ 10لاکھ تک بڑھ گئی جبکہ انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں ملکی تاریخ میں پہلی بار 137فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا، ملک میں کاروبار کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے باعث عالمی درجہ بندی میں کاروبار کے لئے سازگار فضا کے لئے پاکستان کی پوزیشن 147سے بہتر ہو کر 136درجے پر آ گئی۔
بجلی چوروں کے خلاف کارروائی سے ایک ارب چھتیس کروڑ روپے وصول کئے گئے، 175ممالک کے لئے آن لائن ویزا سروس کا اجرا کیا گیا، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لئے وفاق، صوبائی اور سرحدی سطح پر کمیٹیاں قائم کی گئیں، صحت سہولت پروگرام کے تحت ملک بھر میں 20لاکھ خاندانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا، بے گھر افراد کو اپنی چھت دینے کے لئے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام شروع کیا گیا۔
آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالرز کے پروگرام کے لئے کامیاب مذاکرات کئے گئے، ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے سعودی عرب، یو اے ای، چین اور دیگر دوست ممالک سے اربوں ڈالر کی امداد اور آسان قرضے حاصل کئے گئے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں تقریباً دس فیصد اضافہ ہوا، ریلوے میں چار ارب روپے کا خسارہ کم کیا گیا، مہمند ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، 8ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی گئی، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات کو کم کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بھی ریکاڑد سطح تک کم کیا گیا۔
ایل این جی کی کم قیمت پر درآمد کو یقینی بنایا گیا، بیرونی دنیا سے تعلقات بہتر کئے گئے، مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا گیا، وزارتِ پوسٹل سروسز کی آمدنی میں سات ارب روپے اضافہ کیا گیا جبکہ ایک ارب روپے کی بچت کی گئی، عازمینِ حج کے کوٹے کو بڑھایا گیا، خطیر بیرونی قرضے ادا کئے گئے، بلین ٹری سونامی پروگرام شروع کیا گیا، غربت میں کمی کے لئے احساس پروگرام کا اجرا کیا گیا، 2023تک ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور ترقی کی شرح کو 7فیصد تک پہنچانے کی حکمت عملی وضع کی گئی۔
دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت کے خاتمے کے دن 31مئی 2018سے 31مئی 2019تک الیکٹڈ بمقابلہ سلیکٹڈ کے عنوان سے دس ماہ کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں وائٹ پیپر شائع کیا تاہم صرف بیانات جاری کرنے تک محدود پارٹی کو ایک سال پورا ہونے پر اسے اَپ ڈیٹ کرنے کا وقت نہیں ملا۔
اس وائٹ پیپر کے مطابق دس ماہ میں روپے کی قدر میں 27فیصد کمی ہوئی، مہنگائی کی شرح دو اعشاریہ آٹھ فیصد سے تقریباً دس فیصد تک بڑھ گئی، بجلی کی قیمت میں 20جبکہ گیس کی قیت میں 143فیصد اضافہ ہوا، پٹرول کی قیمت23، ڈیزل کی 24فیصد بڑھ گئی، ٹیکس میں پانچ سو ارب روپے کا شارٹ فال ہوا، ترقیاتی بجٹ میں تیس فیصد کمی ہوئی، قرضہ 28ہزار چھ سو ارب روپے تک بڑھا، غیر ملکی قرضوں میں 8ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، ترقی کی شرح 8.5فیصد سے کم ہو کر 2.2فیصد پر آ گئی، پالیسی ریٹ بارہ فیصد سے بڑھ گیا، حکومت کا بجٹ خسارہ 28فیصد بڑھا۔
اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری میں 51فیصد کمی ہوئی، روپے کی قدر 25فیصد کم ہوئی، اسٹاک مارکیٹ 25فیصد مندی کے ساتھ 42900پوائنٹس سے 32000 پرآ گئی، حکومتی اخراجات میں 449ارب روپے کا اضافہ ہوا، پی ایس ڈی پی میں 32فیصد کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی، مالیاتی خسارہ 27فیصد بڑھ گیا۔
پیپلز پارٹی نے وائٹ پیپر میں ادارہ شماریات کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا کہ ایک سال میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح 84.5فیصد سے بڑھ کر 83.10فیصد تک پہنچ گئی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں دس فیصد کمی کے برعکس پاکستان میں قیمتیں ایک سال میں 24فیصد بڑھ گئیں، ادویات کی قیمتوں میں 200فیصد اضافہ کیا گیا، گیس کی قیمتوں میں 600فیصد جبکہ بجلی کے بلوں میں 30فیصد ریکارڈ اضافہ دیکھنے کو ملا۔
پچاس لاکھ گھر بنانے کے حکومتی دعوے کے مطابق ایک سال میں دس لاکھ گھروں کی تعمیر کے بجائے لاکھوں غریب لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا، چار فیصد سے کم شرح ترقی کے ساتھ ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ بھی کسی طور پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، اب تک تقریباً 20لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں، ایک سال میں مجموعی قرضوں میں 7ہزار دو سو ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے، حکومت 3.64فیصد ٹیکس بالواسطہ وصول کر رہی ہے جو گزشتہ مالی سال کے نظر ثانی بجٹ کے مقابلے میں تقریباً دو فیصد زیادہ ہے، ٹیکس وصولی میں 495ارب روپے کی کمی ہوئی، دعوئوں کے برعکس آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرض اور امداد لینے کے باوجود زر مبادلہ کے ذخائر روز بروز کم ہو رہے ہیں۔
قارئین! ایک سال مکمل ہونے پر حکومت اور اپوزیشن تو اپنا اپنا سچ بیان کر رہے ہیں، آپ اپنے اوپر بیتے بارہ ماہ کی مشکلات اور آسائشوں کا موازنہ کرکے اپنا سچ بخوبی تلاش کر سکتے ہیں۔