پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ

ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID)نے ریکوڈک (Reko Diq)معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان کی تاریخ کا تقریباً 6 ارب ڈالر کا سب سے بڑا جرمانہ عائد کیا ہے جس پر پاکستان میں حسب روایت ایک کمیشن بنادیا گیا ہے کہ وہ ذمہ داروں کا تعین کرنے کیساتھ ساتھ اس معاملے کی تحقیقات کرے کہ ملک کو کس وجہ سے اتنا بڑا نقصان ہوا؟

بین الاقوامی عدالت ICSIDسے پاکستان پر جرمانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل 22اگست 2017ء کو ترکی کی ایک پاور کمپنی سے سے رینٹل پاور معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان پر تقریباً 900 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جبکہ اس سے پہلے 1997ء میں ترکی کی ایک تعمیراتی کمپنی نے اسلام آباد پشاور موٹر وے معاہدہ منسوخ کرنے پر 756ملین ڈالر کا کلیم دائر کیا تھا لیکن ICSIDنے تکنیکی بنیادوں پر اسے مسترد کردیا۔ 

حال ہی میں لندن کی آربرٹیشن کورٹ نے برطانیہ کی اثاثے ریکوری کرنیوالی کمپنی جس سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی سیاستدانوں کے بیرون ملک غیر قانونی اثاثے دریافت کرنے کیلئے نیب نے معاہدہ کیا تھا، کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر پاکستان پر 33ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر معاہدوں کے منسوخ ہونے سے ملک کو نہ صرف ناقابل برداشت مالی نقصان پہنچا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ شدید متاثر ہوئی جس سے پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

قارئین! ریکوڈک کیس میں حکومت پاکستان پر عائد کئے جانے والے سب سے بڑے جرمانے کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سونے اور تانبے کی آسٹریلوی کان کن کمپنی نے اپنی فزیبلٹی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ریکوڈک میں تانبے کے 22 ارب پائونڈ اور 13 ملین اونس سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500ارب ڈالر ہے۔

کمپنی کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان اور بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مذکورہ کمپنی نے سونے اور تانبے کی کان کنی کے اس منصوبے کیلئے 3.3 ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں ایئر پورٹ، سڑکیں، رہائشی مکانات اور معدنیات کی منتقلی اور گوادر تک معدنیات کی بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کیلئے 682 کلومیٹر طویل ٹرانسپورٹیشن پائپ لائن کی تعمیر بھی شامل تھیں۔

معاہدے کے مطابق کمپنی آمدنی کا 25 فیصد بلوچستان حکومت کو بغیر کسی سرمایہ کاری کے دینے کی پابند تھی کیونکہ معدنیات صوبوں کی ملکیت ہوتی ہیں مگر اگلے 10 برسوں میں اس منصوبے کی ملکیت بدلتی چلی گئی۔ نواز شریف کے پہلے دور حکومت کے بعد نگراں حکومت نے مینڈیٹ نہ ہونے کے باوجود ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ آسٹریلوی کی ایک کان کن کمپنی کو دے دیا تاہم 2000ء میں بی ایچ پی نے ایک اور فرم کو اس منصوبے میں شامل کرلیا جس کے بعد اس منصوبے کو آسٹریلوی کمپنی جو پاکستان میں بھی رجسٹرڈ کروائی گئی تھی، کو منتقل کردیا گیا۔

2009ء میں کمپنی نے ایک نئی فزیبلٹی اسٹڈی رپورٹ جمع کروائی اور فروری 2011ء میں کان کنی کی درخواست دی جس کے بعد اس منصوبے میں کرپشن کی کہانیوں اور معدنی ذخائر کی لوٹ مار کے اسکینڈلز سامنے آنے لگے۔

بعد ازاں اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے منصوبے کو منسوخ کرنے کیلئے درخواست دائر کی۔ مئی 2011ء میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ ٹی ٹی سی پاکستان کی جانب سے دی گئی کان کنی کی درخواست پر منصفانہ اور شفاف کارروائی کی جائے۔ اس طرح عدالتی مداخلت کے بعد صوبائی حکومت نے ٹی ٹی سی پاکستان کا لائسنس منسوخ کردیا جس کے بعد سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے دوسری کمپنیوں کو 11لائسنس جاری کئے گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 11لائسنسوں میں سے 5 لائسنس ایسی پاکستانی اور چینی کمپنیوں کو دیئے گئے جنہیں اس سے پہلے سونے اور تانبے کی کان کنی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پاکستان کے سونے اور تانبے کے پہلے منصوبے سینڈک کو پاکستان سینڈک میٹل اور چائنا انجینئرنگ کمپنی کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا لیکن مالی مشکلات کے پیش نظر چائنا کی ایک اور کمپنی کو 2002ء میں 10سال کیلئے بغیر کسی مانیٹرنگ نظام کے لیز پر دے دیا گیا۔ 

اس کمپنی نے 2004ء سے 2008ء تک 7.746 ٹن سونا نکال کر پاکستان کو سونا پیدا کرنے والے ممالک میں شامل کردیا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت 86013 ٹن تانبا، 11046 ٹن چاندی، 14482 ٹن میگنائٹ کی معدنی دولت بھی حاصل کی گئی۔ ایک سروے کے مطابق چائنیز کمپنی کی لیز ختم ہونے کے بعد اس کان سے صرف 9 سال تک مزید معدنیات حاصل کی جاسکتی تھیں۔

میں خاص طور پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ہمیں شاید ان حساس نوعیت کے معاہدوں کی بین الاقوامی اہمیت اور انہیں یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے مالی نقصانات کا اندازہ نہیں تھا۔ عالمی عدالتیں ان جرمانوں پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان کے بیرونی اثاثوں کی ضبطی کا حکم بھی دے سکتی ہیں جو پاکستان کی ہتک کا باعث ہوگا۔

پی ٹی آئی حکومت نے قطر سے ایل این جی گیس امپورٹ کرنے کے معاہدے کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں نیب سابق وزیراعظم سے تحقیقات بھی کررہی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں آئی پی پیز (IPPs)کو حکومت پاکستان کی گارنٹیاں حاصل ہیں جس کی بنیاد پر یہ کمپنیاں عالمی عدالتوں میں جانے کی مجاز ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ تمام سرکاری محکموں کو بڑے معاہدے کرنے کیلئے پروفیشنل اور قانونی مہارت فراہم کی جائے تاکہ معاہدے کرتے وقت شفافیت کے ساتھ تمام قانونی شقوں کو مدنظر رکھا جاسکے اور تنازع کی صورت میں ملک کا دفاع کرتے ہوئے خطیر جرمانوں سے بچا جا سکے۔

مزید خبریں :