بلاگ
Time 09 ستمبر ، 2019

تھوڑا سا صبر اور!

بدھ کی سہ پہر جب میں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہو رہا تھا ٹھیک انہی لمحوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ یکے بعد دیگرے نور خان ایئر بیس چکلالہ پر لینڈ کر چکے تھے، وزیراعظم سیکرٹریٹ میں رش کچھ زیادہ ہی، پارکنگ میں بے حساب گاڑیاں، چوتھے فلور پر گیا، ویٹنگ روم ملاقاتیوں سے بھرا ہوا، پانچویں فلور پر آیا، بیورو کریٹ، وزیر، ارکانِ اسمبلی، کوئی یہاں کھڑا، کوئی وہاں کھڑا، نعیم الحق صاحب کی طرف گیا، کمرہ جمعہ بازار بنا ہوا۔

وزیراعظم سے ملاقات سوا پانچ بجے تھی، شاید اسی رش کی برکت، ملاقات آدھا گھنٹہ لیٹ ہوئی، وزیراعظم دفتر کے سامنے ویٹنگ روم میں بیٹھا تھا کہ پتا چلا ٹیکس خوروں کو 3 ارب ٹیکس معافی کا فیصلہ وزیراعظم نے واپس لے لیا، خوشی ہوئی کہ چلو ’دیر آید درست آید‘، پونے چھ بجے وزیراعظم آفس میں داخل ہوا تو سلام دعا کے بعد جب بات شروع یہیں سے کی کہ ٹیکس خور صنعتکاروں کو معافی، فیصلہ واپس، آپ نے اچھا کیا، تو جواباً وزیراعظم نے جو بتایا، حیران کن، مجھے باہر گردش کرتی دو مشیروں، بیورو کریسی، سیٹھ گٹھ جوڑ کہانی سچی لگنے لگی۔

وزیراعظم کی باتوں سے لگا نہ صرف انہیں بے خبر رکھا گیا بلکہ متعلقہ وزارتوں سے چھپ چھپا کر کابینہ کو بلڈوز کر کے ٹیکس معافی سمری منظور کروائی گئی، وہ تو بھلا ہو فیصل واوڈا، مراد سعید اور ندیم افضل چن کا، جن کے بروقت توجہ دلانے پر وزیراعظم کو پتا چلا کہ یہ وہ نہیں جو مجھے بتایا گیا، یہ معاملہ تو کچھ اور ہی۔

ٹیکس معافی کہانی کے بعد میں نے کہا، سر باقی باتیں بعد میں، پہلے میرے چار سوال، بولے، پوچھو، میں نے کہا، سنا ہے ہم اسرائیل کو تسلیم کر رہے، بیک ڈور بات چیت ہو رہی، وزیراعظم لہجہ تلخ میں بولے، ’’یہ کون لوگ، جو اس قسم کی بیہودہ باتیں پھیلا رہے، ان کو شرم بھی نہیں آتی، یہ سب پروپیگنڈا‘‘، میں نے کہا ’’سنا جا رہا، کشمیر پر سودے بازی ہو چکی‘‘ جواب آیا ’’ویسے تو یہ میرے جیتے جی نہیں، لیکن یہ ہے بھی ناممکن، پاکستان، بھارت، امریکہ مل کر کوئی سمجھوتہ کرنا چاہیں تو بھی یہ ناممکن، کیونکہ جب تک کشمیری قیادت، کشمیری عوام کی مرضی شامل نہیں ہوگی تب تک کوئی کچھ نہیں کر سکتا‘‘، پوچھا ’’سننے میں آ رہا، ہاؤس آف شریفس سے رابطے کئے جا رہے، آئیں سمجھوتہ کر لیں، صلح کر لیں‘‘۔

عمران خان مسکرائے، سامنے ٹی وی پر لگے انگلینڈ، آسٹریلیا ایشز سیریز ٹیسٹ میچ کو چند لمحوں کیلئے دیکھا اور پھر بہت کچھ بتا کر، اسے آف دی ریکارڈ بتا کر بولے’’جتنا ان کا برا حال ہے، اتنا تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا، سب افواہیں شریفوں کے حواری پھیلا رہے، لیکن جان تب چھوٹے گی جب پیسے دیں گے‘‘، میں نے زراری صاحب اینڈ کمپنی کا پوچھا تو وزیراعظم نے یہاں بھی بہت کچھ آف دی ریکارڈ بتا کر کہا ’’تھوڑا سا اور انتظار کر لو‘‘۔

میرا اگلا سوال تھا، سر گورننس، معیشت کے مسائل سنگین، کیوں ایسا لگ رہا، جیسے صورتحال آؤٹ آف کنٹرول، عمران خان بولے ’’گورننس کے مسائل ہیں، اسے دیکھ رہا ہوں، سب وزیروں، بیورو کریٹس سے کہہ دیا سال ہوگیا، اب کارکردگی نہیں تو چھٹی ہو جائے گی، جہاں تک معیشت کی بات، یہ معیشت پر فوکس کا سال، ہم مشکل ترین معاشی مسائل سے نکل چکے، اب معیشت روز بروز بہتر ہو گی‘‘، میں نے کہا، یہ تاثر کیوں، آپ کی ٹیم نالائق، کہنے لگے ’’یہ پروپیگنڈا‘‘ میں نے کہا، یہ ٹیم ڈیلیور کر رہی ہے، جواب آیا ’’چیک اینڈ بیلنس سخت کر دیا، تبدیلیاں بھی ہوں گی، اب ڈیلیوری نظرآئے گی‘‘۔

پوچھا ’’سائیں بزدار تبدیلی کا کوئی امکان‘‘ بولے ’’وہ ایماندار، عاجز، کام کر رہا، تبدیلی کیوں‘‘ میں نے کہا ’’چلو ملک گیر مہنگائی، بے روزگاری کو چھوڑ دیں جو پنجاب کا حال، سائیں بزدار کیا، یاسمین راشد تک نظر نہیں آ رہیں، تعلیم، صحت کا برا حال، وزراء مایوس، بیورو کریسی سازشوں میں لگی ہوئی، پولیس، پٹوار اصلاحات نہ ہو سکیں، ہر ادارے میں سیاسی مداخلت عروج پر، غریب، مڈل کلاس، تاجر، صنعتکار کسی کی کوئی شنوائی نہیں اور آپ کے ہاں سب اچھا‘‘، سب سن کر بولے ’’تم سب شو بازی کے عادی، ڈراموں کے شوقین، اب پنجاب میں ڈرامے نہیں کام ہو رہا، وہ بھی خاموشی سے‘‘، میں نے بات کاٹ کر کہا ’’وہ کام دکھائی کیوں نہیں دے رہا، کیوں لوگ پریشان، کیوں باہر گلیوں، محلوں، بازاروں میں لوگ طنزاً پوچھیں ’’کیسی لگی تبدیلی‘‘۔

وزیراعظم کہنے لگے ’’ایک تو پہلا سال بنیادی کاموں میں گزرا، ہم سے غلطیاں بھی ہوئیں، پھر دوسرا یہ مسئلہ بھی کہ ہم اپنے اچھے کام بھی لوگوں کو نہیں بتا پائے لیکن تھوڑا سا صبر، اب پرفارمنس دکھائی دے گی‘‘۔

اس شام وزیراعظم کی زیادہ تر گفتگو آف دی ریکارڈ تھی، وہ خارجہ محاذ پر ملی کامیابیوں پر مطمئن تھے، وہ اپنی کابینہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، وہ اس بات پر خوش تھے کہ کشمیر کے معاملے پر انہوں نے مودی کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا، وہ بتا رہے تھے، ’’مودی کو میرے اس ردِعمل کی توقع نہیں تھی، مودی کا خیال تھا کہ سابقہ پاکستانی حکمرانوں کی طرح عمران خان کا رویہ بھی معذرت خواہانہ ہوگا مگر میں نے جس طرح ہٹلر سے تشبیہ دے کر اس کے فاشزم کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کیا وہ ڈپریشن میں چلا گیا اور اسی فرسٹریشن میں اس نے ٹرمپ کو میری شکایت لگا دی‘‘۔

اس شام وزیراعظم سے مل کر جب میں وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ایک گیٹ سے نکل رہا تھا تو ٹھیک اسی وقت دوسرے گیٹ سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی گاڑیوں کا قافلہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہو رہا تھا، واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جیسے عوامی مسائل پر وزیراعظم کو مکمل حقائق کا علم نہیں، ویسے ہی عثمان بزدار کے حوالے سے وہ مسلسل خوش فہمی کا شکار، سال ہوگیا، وزیراعظم ابھی تک بزدار صاحب کی ایمانداری سے آگے نہ بڑھ پائے، بلاشبہ حکمران کا ایماندار ہونا اچھی بات، مگر کیا کسی حکمران کا صرف ایماندار ہونا ہی کافی، کیا سائیں بزدار کی ایک سالہ ایمانداری ایسی ہے کہ تعریف کی جاسکے۔

میں سوچ رہا تھا کہ کیا عمران خان صرف اس خوبی پر کہ سائیں بزدار ایماندار، انہیں شوکت خانم یا نمل یونیورسٹی کا سربراہ بنا سکتے ہیں، یقیناً نہیں... تو پھر فرانس سے بڑے پنجاب، آدھے پاکستان کو پرفارمنس لیس ایمانداری کی بھینٹ چڑھا دینا کہاں کی عقلمندی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔