12 اکتوبر ، 2019
مولانا فضل الرحمٰن کے اعلان کردہ آزادی مارچ کا وقت جوں جوں قریب آ رہا ہے ہر طرف تقسیم بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
ایک طرف حکومت میں شامل بعض لوگ دھرنے کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی منقسم ہے اور شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی بات ماننے کیلئے ہرگز آمادہ نظر نہیں آتے۔
وفاقی دارالحکومت کی ہمہ رنگ محفلوں میں یہ گرما گرم بحث جاری ہے کہ آیا مولانا فضل الرحمٰن کو تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہے یا نہیں؟ مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھیں کہ کیا آپ کو کوئی اشارہ کیا گیا ہے؟ تو نفی میں گردن ہلاتے مولانا کہتے ہیں کہ وہ بالآخر سب کو اپنی دلیل پر قائل کر لیں گے۔
پاکستان بڑا منفرد ملک ہے۔ یہاں حکومت ہو یا اپوزیشن، کامیابی کی کنجی کیلئے تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کسی کے ساتھ کے بغیر چلائی جا سکتی ہے، وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی پانچ حکومتوں کے انجام دیکھ لیں اور جو یہ مانتے ہیں کہ حمایت کے بغیر اپوزیشن کی جا سکتی ہے وہ خیبر پختونخوا میں پشتونوں کی حالیہ تحریک کے مسائل یا پھر بلوچستان میں اکبر بگٹی مرحوم اور سندھ میں جی ایم سید کا انجام ملاحظہ کر لیں۔
اگر پھر بھی دل نہ مانے تو حالیہ دور میں پنجاب میں مریم نواز، رانا ثناء اللہ اور دیگر کی مثالوں سے استفادہ کر لیں۔
سب سمجھ آ جائے گی کہ چند انفرادی واقعات کو چھوڑ کر یہاں ساتھ کے بغیر حکومت کرنا ممکن ہے، نہ تحریک چلانا آسان۔ وجہ بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ سیاستدان متحد ہی نہیں۔ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے بجائے کہیں اور دیکھتے ہیں۔ ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو تین باتیں واضح ہیں۔
اول یہ کہ کچھ سیاسی و غیر سیاسی قوتیں اس احتجاج کے حق میں نہیں کیونکہ یہ احتجاج خود ان کے لیے مسئلہ ہے۔ دوم یہ کہ اس احتجاج کی صورت میں کچھ بھی ہو، نئے انتخابات منعقد نہیں ہوں گے۔
وجہ معیشت کی دگرگوں صورتحال ہے اور سوم یہ کہ ملک میں جمہوریت کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں کشمیر کے بارے میں عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف بھارتی موقف جیت جائے گا۔
اگر مولانا کے آزادی مارچ سے قبل انہیں اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور خیبر سے کراچی تک ان کے ماننے والے اسلام آباد نہ پہنچ سکے تو ثابت ہو جائے گا کہ پیچھے کوئی نہیں لیکن اگر عوام کا ایک جم غفیر اسلام آباد پہنچ گیا تو صورتحال بدل جائے گی جو ایک دو لوگ مولانا کے ساتھ نہیں، شاید وہ بھی ان کے ساتھ مل جائیں۔
مولانا تو دھرنا کامیاب کرنا ہی چاہتے ہیں مگر حکومتی اکابرین بھی ان کا دھرنا کامیاب کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ حکومت نے تمام توپوں کا رخ مولانا کی طرف موڑ کر انہیں توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرمولانا کو روکنے کی کوششوں نے پُرتشدد رنگ اختیار کر لیا اور چند لاشیں بھی گر گئیں تو معاملہ اتنی شدت اختیار کر سکتا ہے کہ تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی سوچیں بدل جائیں اور پارلیمنٹ کے اندر سے ایک نئی تبدیلی رونما ہو جائے۔
ایک ممکنہ صورت پنجاب کے وزیراعلیٰ کی ممکنہ تبدیلی کے لیے دباؤ میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ مولانا کے آزادی مارچ سے قبل ہی بہت سے حلقے پنجاب کے طرزِ حکومت سے نالاں ہیں۔ پنجاب کی بیورو کریسی میں یہ بات مشہور ہے کہ اصل وزیراعلیٰ عثمان بزدار نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے۔
وہی شخص جس کی اہلیہ نے بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں مبینہ طور پر اہم کردار ادا کیا تھا۔ بزدار وزیراعلیٰ تو بن گئے مگر ابھی تک پنجاب میں نون لیگ کا زور توڑ سکے نہ ہی کوئی بڑا کام کر سکے۔ اس بار احتجاج کا نشانہ تو عمران خان ہی ہیں لیکن کہیں حالات خراب ہوئے تو یہ معاملہ بزدارکے استعفیٰ پر ہی منتج ہو سکتا ہے۔
مولانا کو کسی کا ساتھ حاصل ہے یا نہیں؟ اس بات کا سراغ لگانے کیلئے ایک پیمانہ میڈیا بھی ہے۔ اس وقت مولانا فضل الرحمٰن پر میڈیا میں غیر علانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔
ان کا انٹرویو کسی ٹی وی پر نہیں چل سکتا۔ ٹی وی چینلز کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ دھرنے کی کوریج سے گریز کریں۔ مگر اس تمام کے باوجود 3؍اکتوبر کو جب مولانا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے آزادی مارچ کا اعلان کیا تو حیران کن بات یہ تھی کہ اس شام اکثر ٹی وی چینلز مولانا کی اس پریس کانفرنس کو براہِ راست نشر کر رہے تھے۔
دوسرا یہ کہ ٹی وی چینلز پر بعض چہرے اچانک وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف ہو گئے ہیں جو سوچنے کی بات ہے۔ یہ سوچ کی تقسیم کی علامت ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج نے پارلیمنٹ میں حکومت کے بعد دوسری سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی تقسیم بھی واضح کر دی ہے۔
پارٹی واضح طور پر نواز شریف اور شہباز شریف گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ نواز شریف کی واضح ہدایت کے باوجود شہباز شریف مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ نہ دینے پر بضد ہیں۔
شہباز شریف نے اپنی والدہ کے ساتھ اپنی بہن کوثر کو بھی بڑے بھائی کو رام کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے۔ خاندان کے اندر چھوٹے اور بڑے بھائی کے مخالف نظریات ایک واضح تلخی پیدا کر چکے ہیں جس کا ثبوت کیپٹن صفدر کا یہ انکشاف بھی ہے کہ اب مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں شرکت کی تمام ہدایات حسین نواز دیں گے۔ یعنی شہباز شریف آؤٹ، حسین نواز اِن۔
سچ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج نے حکومت سے لے کر اپوزیشن تک سب کو تقسیم کر دیا ہے۔ ان کے ساتھ کوئی ہے یا نہیں، یہ بات زیادہ دیر چھپ نہیں سکے گی۔