16 اگست ، 2012
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق کامرہ کا یہ بیس ان جگہوں میں سے ایک خیال کیاجاتاہے جہاں پاکستان کے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو وارہیڈز میں سے کچھ یہاں پرموجود ہیں۔یہ حملہ بڑھتی ان قیاس آرائیوں کے درمیان ہوا جس میں امریکا کے دیرینہ مطالبے پر پاک فوج شمالی وزیر ستان میں آپریشن کرنے جا رہی ہے۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق دہشت گرد جے ایف تھنڈر کو نشانہ بنا نا چاہتے تھے جسے اس آپریشن میں استعمال کی جانا تھا۔لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں کہ اس بیس پر کتنے فائٹر طیارے موجود تھے اور کتنوں کو نقصان پہنچا۔عسکریت دوبار پہلے بھی اس بیس کو نشانہ بنا چکے ہیں ایک بار2007 اس کے گیٹ پر ایک خود کش بمبار نے بس کو نشانہ بنایا۔2008میں کئی راکٹ اس پر فائر کیے گئے۔ پاکستانی اخبار کے حوالے سے بتایا کہ انٹیلی جنس حکام نے رپورٹ دی تھی کہ پاکستانی طالبان لاہور کے نذدیک کسی ایئر بیس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور وہ عید الفظر سے قبل پیر کے قریب حملہ کریں گے ۔اخبار نے واشنگٹن کے ایک تجزیہ کار کے حوالے سے لکھا کہ یہ حملہ وزیر ستان میں ملٹری آپریشن کے قیاس آرائیوں میں ہونے کا مطلب طالبان پاکستانی قیادت پر واضح کر رہے ہیں کہ اگر تم ہمیں نشانہ بناوٴ گے تو ہم کسی بھی جگہ تمہیں نشانہ بنائیں گے۔امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق اس حملے نے دہشت گردوں کو کچلنے میں ملٹری فورسز کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھا دیئے ہیں،طالبا ن ترجمان نے کئی سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے،ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جن جو کسی بھی جگہ ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ مقابلہ دو گھنٹے سے زیادہ تک جاری رہا،یہاں فرانسیسی ساختہ طیاروں کے علاوہ اس بیس پر موجود لڑاکا طیاروں میں چین کے اشتراک سے تیار کیے گئے ’جے ایف سترہ تھنڈر‘ بھی ہیں۔ماہرین کے مطابق اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار کسی بیس یا ملٹری چھاوٴنی میں ہیں۔جوہری ہتھیاروں کا نظام کلی مختلف ہے۔اور اس کے معاملات جدا ہیں۔کسی بھی جوہری ہتھیا ر کو نامعلوم مقام پر نہیں رکھا گیا۔حملہ آور اس علاقے اور بیس سے بخوبی واقف تھے۔ یہ کم تعلیم یافتہ طالبان کا کام نہیں بلکہ القاعدہ کے منصوبہ سازوں کی کارروائی ہے۔امریکی اخبار’بوسٹن گلوب کے مطابق جوہری پر گرام سے منسلک بیس پر نو دہشت گردوں نے حملہ کیا ،اس حملے کے کچھ گھنٹوں بعد پاکستان کے شمالی حصے میں بسوں سے 20افراد کو اتار کر گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ دونوں واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قبائلی علاقے میں ملٹری آپریشز کے باوجود اور فرقہ وارانہ واقعات میں طالبان ابھی بھی پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ’لاس اینجلس ‘ کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی ائیر فورس کا سب سے بڑا حب ہے جہاں فائٹر جیٹ اور ہتھیاروں کی تیاری کاپروگرام ہے۔عسکریت پسندوں کا سیکورٹی فورسز سے د وگھنٹے سے زیادہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ایک تجزیہ کار کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ جوہری پروگرام کے بارے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،اگرچہ دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا، تاہم انہوں نے ہائی سیکوریٹی علاقے میں دو گھنٹے سے زیادہ سیکورٹی فورسز کا مقابلہ کیا پاکستانی حکومت اور سیکوریٹی اداروں کو سیکورٹی نظام کی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے۔سائنس کرسیچئین مانیٹر‘ نے لکھا کہتحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کسی نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے منہاس ائربیس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور کہا کہ ”ہمیں اس آپریشن پر فخر ہے۔ ہماری قیادت نے کافی عرصہ پہلے کامرہ بیس پر حملے کا فیصلہ کیا تھا۔برطانوی اخبار’ٹیلی گراف ‘کے مطابقبیس پر حملے نے اوباما کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا درد سر پاکستان کے جوہری پروگرام کی سیکورٹی پر تازہ سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ سیکورٹی تجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستانی خفیہ ایجنسی کی طرف سے وارننگ کے بعد تمام ملٹری تنصیبات پر ریڈ الرٹ کے باوجود مسلح افراد اس کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔آئی ایس آئی نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ 27رمضان کو دہشت گردی کے حملے کا خطرہ ہے ۔ 2007کے بعد اس بیس پر تیسرا اور شدید ترین حملہ ہے۔وائس آف امریکا اور برطانوی اخبار ’گارجین ‘کے مطابق فضائیہ ترجمان نے ان اطلاعات کو مسترد کیا ہے کہ فضائیہ کی اس تنصیب پر جوہری ہتھیار رکھے گئے ہیں۔ ”پاکستان کی کوئی ائربیس بھی جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں۔ منہاس ائربیس دارالحکومت اسلام آباد سے 75 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے جو فضائیہ کے ایک بڑے تحقیقاتی و ترقیات مرکز ’پاکستان ائروناٹیکل کمپلیکس‘ سے متصل ہے۔ فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل طاہر رفیق بٹ نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد ائرہیڈکوارٹر میں جمعرات کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ امریکی اخبار وال استریٹ جرنل اور برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فضائیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی لاشوں سے خود کش جیکٹیں ملی ہیں اور حملہ آوروں کے پاس ’راکٹ پروپلڈ گرنیڈ‘ (آر پی جی) اور خودکار ہتھیار بھی موجود تھے۔عسکری ذرائع کا کہنا ہے حملہ آوروں کی تعداد گیارہ سے پندرہ کے درمیان تھی۔ اور یہ حملہ دو ہزار نو میں جی ایچ کیو پر ہونے والے حملے کی طرز پر کیا گیا۔حملہ آو،روں نے جس سمت سے کارروائی کی، اس کے پیشِ نظر اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ حملہ آوروں کو پہلے سے یہ معلومات حاصل تھیں کہ یہ حساس طیارے اڈے میں کس مقام پر موجود ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے نے لکھا کہ اس حملے میں محض ایک ہوائی جہاز متاثر ہوا ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے ترجمان گروپ کیپٹن طارق محمود نے کہا کہ مرکزی صوبے پنجاب کے علاقے کامرہ میں قائم منہاس بیس میں کوئی بھی جوہری ہتھیار موجود نہیں۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا کوئی بھی ایئر بیس نیوکلیئر بیس نہیں ہے۔سکیورٹی حکام کے مطابق چار گھنٹے جار ی رہنے والی کارروائی کے بعد جمعرات کی صبح تک حالات پر قابو پایا جا چکا تھا۔ اس آپریشن میں حملہ آوروں سے نمٹنے کے لیے کمانڈوز طلب کیے گئے تھے۔