18 اکتوبر ، 2019
اسلام آباد: وفاقی پولیس نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کا آزادی مارچ روکنے کی تیاریاں شروع کردیں۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کیٹرنگ، ٹینٹ سروس، ہوٹلز، گیسٹ ہاؤس اور جنریٹر دھرنے کے شرکاء کو نہ دیے جائیں۔
مراسلے کے مطابق ساؤنڈ سسٹم سمیت کوئی بھی چیزدھرنے کے شرکاء کو نہ دی جائے، ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد عامر ذوالفقار کی سربراہی میں وفاق، پنجاب، خیبر پختوانخوا اور موٹر وے کے پولیس افسران کا مشاورتی اجلاس ہوا۔
پولیس ذرائع کے مطابق آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد داخل ہونے سے روکنے کی حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا، پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کی تعیناتی کے امور بھی زیر غور آئے۔
ذرائع نے بتایا کہ خیبر پختونخوا سے آنے والی ریلیوں کو دریائے سوات پر مینگورہ پل جبکہ دریائے سندھ پر کوہاٹ اور خوشحال گڑھ پل پر روکنے کا جائزہ لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پنجاب میں چناب اور جہلم کے پلوں کو بند کرنے سمیت اہم انٹر چینجز پر رکاوٹیں لگانے پر بھی غور کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ طے پایا کہ شہریوں کیلئے فیض آباد اور بارہ کہو سمیت اسلام آباد کے اہم داخلی اور خارجی راستے کسی صورت بند نہیں ہونے دیے جائیں گے۔
پولیس ذرائع کے مطابق وفاقی پولیس کے 6 افسران رواں ہفتے خیبر پختونخوا بھیجے گئے تھے جو مارچ کے حوالے سے پیشگی رپورٹ مرتب کریں گے جس کی روشنی میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں انتظامات کو حتمی شکل دی جائے گی اور یہ 6 پولیس افسران اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والی ریلیوں کے ساتھ بھی رہیں گے۔
اِدھر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے آزادی مارچ کرنے اور اسے رکوانے سے متعلق درخواستوں پر فیصلے کیلئے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مقامی شہری کو جمعہ کی سہ پہر 4 بجے طلب کر رکھا تھا تاہم جے یو آئی کا کوئی نمائندہ ڈی سی آفس نہیں پہنچا۔
ضلعی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایک بار پھر جے یو آئی کے نمائندے کو بلائیں گے۔
یاد رہے کہ ماضی میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے 126 دن اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو احتجاج کیلئے کنٹینر اور کھانا دیں گے۔
خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی جماعت اسلامی کے علاوہ تمام اپوزیشن کی جماعتوں نے حمایت کی ہے جبکہ آزادی مارچ کے اعلان کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے، ان حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے قوم ہمارا ساتھ دے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔