22 اکتوبر ، 2019
گلگت میں کوہ پیمائی دوران دل کا دورہ پڑھنے سے انتقال کرجانے والے کوہ پیما عمر احسن کو کراچی میں سپرد خاک کردیا گیا۔
عمر احسن 18 اکتوبر کو گلگت سے ایک نئی مہم کے لیے روانہ ہوئے لیکن 19 اکتوبر کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔
عمر احسن 1965 کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کے بھانجے تھے۔ انہوں نے سوگواران میں والدہ، ایک بہن، دو بیوائیں اور 6 بچے چھوڑے ہیں۔
عمر احسن کی نماز جنازہ معروف عالم دین مفتی محمد زر ولی کی امامت میں جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی میں ادا کی گئی۔
نماز جنازہ میں جماعت اسلامی کے رہنما یونس بارائی سمیت بڑی تعداد میں سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات سمیت عمر احسن کے عزیز و اقارب اور دوستوں نے شرکت کی۔
نماز جنازہ کے بعد عمر احسن کی تدفین ڈی ایچ اے قبرستان میں کی گئی۔
پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے نڈر بے باک عمراحسن نے او لیول کے بعد 1988 میں نیشنل کالج کراچی سے انٹر کیا اور پاکستان آرمی کاکول اکیڈمی میں بطور کیڈٹ شمولیت اختیار کی لیکن دوران تربیت اکیڈمی کو خیر آباد کہہ دیا اور پہاڑوں سے دوستی کرلی۔
انہوں نے کچھ عرصہ پہلے قراقرم ریجن میں پاکستان کی تین بلند ترین جھیلیں دریافت کیں۔ سب سے بلند 17 ہزار 77 فٹ بلند جھیل کا نام انہوں نے قومی ہیرو اور اپنے ماموں ایم ایم عالم کے نام پر رکھا۔
16 ہزار 398 فٹ بلند دوسری جھیل ’لالک جان شہید نشان حیدر‘ کے نام اور تیسری 15 ہزار 990 فٹ بلند جھیل کو اپنا یعنی عمر احسن کا نام دیا۔
قراقرم رینج کے اسی علاقے میں انتہائی بلندی پر رہنے والا نایاب جانور ویزل اور برف سے ڈھکی ایک نئی چوٹی بھی دریافت کی، اس چوٹی کو ویزل پیک کا نام دیا۔
عمر احسن نے 14 اگست 2016 میں سی ویو کے مقام پر شہداء پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے 14 ہزار دیے بھی روشن کیے تھے جو ایک ریکارڈ ہے۔