Time 31 اکتوبر ، 2019
پاکستان

نواز شریف کی بیماری اور چند سوالات

سابق وزیراعظم نواز شریف سروسز اسپتال لاہور میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں، میڈیکل بورڈ کی ابتدائی تشخیص کے مطابق نواز شریف کے پلیٹ لیٹس گرنے کی وجہ اکیوٹ آئی ٹی پی بیماری ہے،

اس مرض میں مبتلا افراد میں مدافعتی نظام خون میں موجود پلیٹ لیٹس کی تعداد کو کم کردیتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) اپنے قائد کی صحت کی تشویشناک حد تک خرابی کا ذمہ دار حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان اور نیب کو گردانتی ہے جبکہ حکومت مسلم لیگ (ن) پہ نواز شریف کی بیماری پر بھی سیاست کرنے کے الزامات عائد کر رہی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے تو اپنے والد کو زہر دئیے جانے کا خدشہ تک ظاہر کیا ہے جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اس تیزی سے پلیٹ لیٹس گرنے اور انہیں بروقت اسپتال منتقل نہ کرنے کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں اور وفاقی کابینہ کے چند ارکان کی طرف سے ابتدائی طور پہ نواز شریف کی بیماری پہ جس طرح طنز کیا گیا اس نے بعض افراد کی طرف سے کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اڑانے کی یاد تازہ کر دی۔

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی طرف سے نواز شریف کی صحت کا ذمہ دار خود کو ٹھہرائے جانے پہ کہا کہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے وہ کوئی عدالت یا ڈاکٹر نہیں ہیں، نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اور اگر مریم نواز نے ملاقات کرنی ہے تو وہ فیصلہ بھی عدالت کرے گی۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کی بیماری پہ تنقید کا نوٹس لیتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کو کسی بھی طرح کی بیان بازی سے روک دیا۔ وزیراعظم کی واضح ہدایات کے باوجود بھی وفاقی کابینہ کے کچھ ارکان اپنی روش سے باز نہ آئے اور انہوں نے نواز شریف کی بیماری پہ اپنی سیاست چمکانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

نواز شریف کی بیماری پہ بھی تنقید کرنے والے رہنماؤں کی تربیت کا اثر ہی ہے کہ اپنے والد کی بیماری پہ اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ پانے والی مریم نواز عدالت پیشی کے موقع پہ اپنے بیٹے سے لپٹ کر روئی اور اس کی وڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی تو کچھ لوگوں نے اس پر بھی ٹھٹھے لگائے۔ یہ وہی مریم نواز ہے جسے توڑنے کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا، وہ جیل کی سختیاں بھی بہادری سے سہتی رہی اور اف تک نہ کی لیکن والد کی بیماری نے اسے توڑ ڈالا اور وہ سسک پڑی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی ہر سختی برداشت کر سکتی ہے لیکن والد کی تکلیف اس سے برداشت نہیں ہوتی۔

اسے توڑنے والے اس کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ نواز شریف سے مل کر جب اس کی طبیعت خراب ہوئی اور والد کے ساتھ والے وارڈ میں داخل کر لیا گیا تو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات دو بجے اسے کوٹ لکھپت جیل کے حکام نے جگایا کہ وہ اسے واپس لینے آئے ہیں۔

مریم نے انہیں بتایا کہ اس کے والد سو رہے ہیں، وہ تہجد کی نمازا دا کرتے ہیں، تھوڑی دیر میں وہ بیدار ہو جائیں گے تو وہ ان سے مل لے پھر اسے واپس جیل لے جائیں لیکں انہوں نے جواب دیا کہ اوپر سے حکم ہے کہ آپ کو ایک سیکنڈ میں واپس لے کر جائیں اور یوں جیل کی زبان میں قیدیوں کی گنتی بند ہونے کے باوجود مریم نواز کو واپس لے جا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ یہاں چند سولات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات حکومت پہ لازم ہیں۔

وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر یا عدالت نہیں تو مریم نواز کو کیسے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے اُن کی ہدایت پہ دوسری بار جیل سے سروسز اسپتال پہنچا دیا جاتا ہے، اگر احتساب کے نظام سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں تو وفاقی کابینہ آرڈیننس کے ذریعے صرف نیب کے قیدیوں کو جیل میں سی کلاس دینے کی ترمیم کیوں منظور کرتی ہے۔

العزیزیہ اسٹیل ملز میں سزا یافتہ کوٹ لکھپت جیل میں پہلے سے قید نواز شریف کو چوہدری شوگر ملز کیس میں تحویل میں لینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، نیب انکوائری یا تفتیش کے لیے تب ملزم کو تحویل میں لیتا ہے جب اسے خدشہ ہو کہ وہ کہیں ملک سے فرار نہ ہو جائے، ملزم با اثر ہے جو شہادتوں، دستاویزات اور گواہان پہ دبائو ڈال سکتا ہے،تفتیش کے لیے پیش نہیں ہوتا تو کیا جیل میں قید نواز شریف کو دوبارہ تحویل میں لینے کی کوئی بھی وجہ ان میں سے صادق آتی ہے۔

نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کی طرف سے بار بار نشان دہی کے باوجود جیل میں نواز شریف کو فراہم کردہ طبی سہولتیں انہیں نیب کی حراست میں کیوں نہیں دی گئیں، ڈاکٹر عدنان کی طرف سے کسی بھی ایمرجنسی کے خطرے سے آگاہی پہ مبنی 16اکتوبر کو ڈی جی نیب کے نام لکھے گئے خط پہ کیوں توجہ نہیں دی گئی، نواز شریف کی طرف سے کئی دن پہلے سے مسوڑوں سے خون آنے کی شکایت کے باوجود کیوں ٹیسٹ نہیں کئے گئے اور طبی امداد فراہم نہیں کی گئی،

نیب کے گیارہ اکتوبر کو نواز شریف کو تحویل میں لینے سے قبل اس بیماری کا نام و نشان تک نہ تھا تو یہ نیب کی تحویل میں صرف دس دن کے اندر ہی کیوں پیدا ہوئی اور سب سے بڑھ کر وہ بیماری جس کی صورتحال دیکھ کر لاہور ہائی کورٹ کو ضمانت کے فیصلے میں یہ شعر لکھنا پڑا اس کا نیب کو ادراک کیوں نہ ہوا۔

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

پر تیرے دل میں بہت کام رفو کا نکلا

مزید خبریں :