Time 04 نومبر ، 2019
پاکستان

حلال کیا اور حرام کیا؟

سنا ہے باخبر صحافی بھی لیفٹ رائٹ پوچھ پوچھ تھک گئے مولانا کے ارادے کیا، تھپکی کس کی: فائل فوٹو

سنا ہے نواز شریف نے شہباز شریف سے پوچھا ’’مولانا کے پیچھے کون، اتنے پُراعتماد کیسے‘‘، سنا ہے شہباز شریف باتوں باتوں میں کئی بار مولانا سے پوچھ چکے، اصل پلان کیا، کس کی مدد حاصل، سنا ہے شہباز شریف نے دو چار دن پہلے ایک سنیئر صحافی سے بھی پوچھا ’’مولانا کرنا کیا چاہ رہے، پیچھے کون‘‘، سنا ہے پی پی والے اب تک پوچھتے پھر رہے، مولانا کے سر پر کس کا ہاتھ، سنا ہے وزیراعظم سے لے کر نِکّے وزیروں، مشیروں تک سب حیرت زدہ، مولانا جیسا بندہ اور یہ سب، سنا ہے مولانا کی اپنی جماعت میں بھی ایک آدھ کے علاوہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ مولانا کا اصل منصوبہ کیا۔

سنا ہے باخبر صحافی بھی لیفٹ رائٹ پوچھ پوچھ تھک گئے مولانا کے ارادے کیا، تھپکی کس کی، مطلب سب کے سب پلان، غیبی مدد کی ٹوہ میں اور سب کے سب اصل خبر سے بے خبر، اوپر سے مولانا نے کسی کو کچھ بتایا نہ بتا رہے، کچھ شیئر کیا، نہ کر رہے، باقاعدہ منصوبہ بندی سے پُراسراریت پھیلا رکھی، جان بوجھ کر سب کو کنفیوز رکھا، مگر اب وہ مرحلہ، جہاں مولانا کو اپنے کارڈ شو کرنا پڑیں گے، اب فیصلہ کن گھڑیاں، اب کنفیوژن، گومگو سے کام نہیں چلے گا، ایک آدھ دن میں سب پتا چلنے والا۔

اب آجائیے موجودہ صورتحال پر، وزیراعظم کا غصہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، گزشتہ سے پیوستہ ہفتہ، جس دن مذاکراتی کمیٹی بنائی، اسی شام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرما دیا ’’پہلی اسمبلی جو ڈیزل کے بنا چل رہی‘‘، یہی نہیں مولانا ابھی اسلام آباد میں صحیح طرح سے بیٹھ بھی نہ پائے کہ گلگت بلتستان پہنچے وزیراعظم نے پھر جلتی پر تیل ڈالا، فرمایا ’’بلاول کا لبرل ازم جھوٹ، وہ لبرلی کرپٹ، مسلم لیگ والے جھوٹوں کے سردار، مولانا کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو بھلا سازش کی کیا ضرورت۔

مولانا مارچ سے پاکستان کے دشمن خوش ہو رہے، مولانا کو دکھا دکھا بھارتی میڈیا تو یوں خوش ہو رہا جیسے وہ بھارتی شہری ہوں، یہ شعلہ بیانیاں صرف وزیراعظم کی نہیں، سب وزراء حتیٰ کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا بھی یہی حال، ہر روز نئی شرلیاں، ہر روز نئی درفنطنیاں، سب کے سب جلتی پر تیل ڈال رہے، کوئی آگ پر پانی نہ ڈال رہا۔

دوسری طرف، مولانا جی ہر حد پھلانگ رہے، جمعے کو حلال دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’دو دن کی مہلت دے رہا، وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، ورنہ ہم انہیں وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار بھی کر سکتے ہیں‘‘، یہی نہیں، اسی تقریر میں آگے چل کر جب مولانا نے یہ جھوٹ بولے، کشمیر بیچ دیا گیا، اسرائیل کو تسلیم کیا جا رہا، عقیدہ ختم نبوت، اسلام خطرے میں، تب اسٹیج پر دائیں جانب کھڑے بلاول مسکرا رہے تھے۔

وہ بلاول جن کی تین نسلیں مذہبی جنونیت کا شکار ہو چکیں، جن کی والدہ بینظیر بھٹو کے بارے میں مولانا فرما چکے ’’عورت کی حکمرانی برداشت کی، قبول نہیں کی‘‘، یہی نہیں، جب مولانا اپنے مذہبی جھوٹوں سے ’حلال دھرنے‘ کو گرما رہے تھے تب بائیں جانب احسن اقبال، خواجہ آصف کھڑے تھے، وہ احسن اقبال جن کو مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے گولی لگ چکی، وہ خواجہ آصف مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے جن کے منہ پر سیاہی پھینکی جا چکی، یہی نہیں جب مولانا نے کہا، دو دن میں استعفیٰ نہ دیا تو (حلال) دھرنے والے وزیراعظم کو گرفتار بھی کر سکتے ہیں‘‘ تب بھی مولانا کے دائیں بائیں بلاول بھٹو، خواجہ آصف، احسن اقبال کھڑے تھے۔

بدنصیبی دیکھئے، اب تک مسلم لیگ، پی پی نے مولانا کے جھوٹے مذہبی کارڈ کی مذمت کی نہ دونوں جماعتیں وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے بیان کی مذمت کر سکیں، یہ ہے ہماری سیاست کا اصل چہرہ، بھدا چہرہ، بدصورت چہرہ، مطلبی چہرہ، خود غرض چہرہ۔

سوچیے، کل جب جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ کیس میں مراد علی شاہ کی گرفتاری کی باتیں ہو رہی تھیں، تب کیسے بلاول بھٹو کی جمہوریت، پارلیمنٹ، سویلین بالادستی خطرے میں پڑی ہوئی تھی، کیسے کہہ رہے تھے، مراد علی شاہ کی گرفتاری کروڑوں ووٹوں کی توہین، لیکن جب مولانا عمران خان کو گرفتار کرنے کا کہہ رہے تھے تب بلاول کو کوئی اعتراض نہ تھا، حالانکہ عمران خان بھی اسی الیکشن کے بعد وزیراعظم بنے جس الیکشن کے بعد مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنے۔

پھر یہی بلاول تھے جنہوں نے مریم نواز کی گرفتاری پر قومی اسمبلی میں انتہائی غصے میں ’بے غیرت‘ کہہ دیا مگر جب بات عمران خان کی گرفتاری کی، تب بلاول کی مسکراہٹیں، میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو، آگے سنئے، ایک طرف کہا جائے، مولانا کے بڑوں کا قائداعظم کو کافرِ اعظم کہنا، مولانا کے بڑوں کا کہنا ’’شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے‘‘، سال پہلے مولانا کا یہ فرمانا، دھاندلی ہوئی، احتجاجاً ہم 14اگست نہیں منائیں گے، کہا جائے، یہ باتیں نہ کریں، یہ باتیں پرانی ہو چکیں، گڑے مردے نہ اکھاڑیں، لیکن جب مولانا ’حرام‘ حکومت کے خلاف حلال مارچ کریں تو کہا جائے، کیا ہوا جو مولانا مارچ کر رہے، عمران خان بھی تو یہ کر چکا۔

جب مولانا حلال دھرنا دیں تو کہا جائے کیا ہوا، عمران خان بھی تو دھرنے دے چکا، جب مولانا حلال لاک ڈاؤن کی حلال دھمکیاں دیں تو کہا جائے کیا ہوا جو مولانا دھمکیاں دے رہے، عمران خان بھی تو سول نافرمانی، لاک ڈاؤن کر چکا، مطلب ہم مولانا جی کا ماضی یاد دلائیں تو چھوڑیں یہ ماضی، لیکن مولانا جب کچھ کریں، یہ جائز، کیونکہ یہ سب ماضی میں بھی ہو چکا۔

اگر تو ہم کو اسی منطق، اصول پر چلنا کہ جو کچھ عمران کر چکا، اب سب کو وہی کرنے کی اجازت تو پھر تیار رہیں، کل عمران خان تھا، آج مولانا، کل کوئی اور ہوگا، پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں، آج ہم غیر آئینی، غیر قانونی اقدامات کو گلیمرائز کرتے رہے، بغضِ عمران، بغضِ اسٹیبلشمنٹ پر حبِّ پاکستان کو ترجیح نہ دی تو آج جتھے وزیراعظم کی گرفتاری کی بات کر رہے ہیں، کل گرفتار بھی کر لیں گے، ویسے بات کتنے مزے کی، حکومت حرام، مولانا کا مارچ، دھرنا، لاک ڈاؤن سمیت سب دھمکیاں حلال، یہ بات تو بہت مزے کی ’آزادی کے رنگ‘ مولانا کے سنگ، توبہ توبہ۔

اب صورتحال ایسی، کچھ بھی ممکن، اچھی، بری خبر کیلئے تیار رہیں، مولانا بند گلی میں، مولانا اکیلے، تنہا، پی پی، ن لیگ عملی طور پر ساتھ نہیں، مولانا کو بلاول بھٹو نے کراچی سے رخصت کیا نہ شہباز شریف نے لاہور میں ریسیو کیا، مولانا کی نواز شریف سے ملاقات چھوڑیں بات بھی نہ ہو پائی، مولانا کو فیس سیونگ چاہئے، یہ فیس سیونگ ملنی چاہئے، وزیراعظم کا استعفیٰ تو بالکل نہیں، مگر درمیانی رستہ نکلنا چاہئے، ورنہ دونوں طرف کے زہریلے مشیر کچھ بھی کرا دیں گے۔

مزید خبریں :