12 نومبر ، 2019
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے معاملے پر وزیر قانون فروغ نسیم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا تاہم کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر ایاز اجلاس میں شریک ہوئے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عطاء تارڑ ، نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام ذیلی کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شریک ن لیگ کے نمائندے عطاء تارڑ نے نوازشریف کی طرف سے ضمانتی بانڈ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
عطاء تارڑ نے کہا کہ ہم سیکیورٹی بانڈز عدالت میں جمع کراچکے ہیں مزید سیکیورٹی بانڈز نہیں دیں گے ، کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا فیصلہ بدھ کی صبح 10 بجے سنایا جائے گا۔
عطاء تارڈ نے کہا کہ ذیلی کمیٹی سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک ہے، اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کے ضمانتی احکامات پر ’شورٹی‘ جمع کرا چکے ہیں، علاج کی بات عدالت میں ہو چکی مزید کہیں شورٹیز جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے نیب کو صبح 10 بجے تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے جبکہ ن لیگ کے نمائندے بھی اپنے مؤقف میں کسی تبدیلی کے بارے صبح 10 بجے تک آگاہ کر سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس صبح 10 بجے دوبارہ ہو گا، ن لیگ اور نیب کے نمائندوں کو بھی اجلاس میں طلب کر لیا گیا ہے، اجلاس میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا۔
’ن لیگ نے نواز شریف کی واپسی سے متعلق ٹائم لائن دینے سے انکار کیا‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق ٹائم لائن دینے سے انکار کیا۔
اجلاس میں ن لیگ نے مؤقف اپنایا کہ نواز شریف کی صحت یابی تک واپس آنے کی کوئی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔
ن لیگ نے یقین دہانی کرائی کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔
فیصلہ سنانے کیلئے کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتے، فروغ نسیم
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے یا نہ نکالنے کے فیصلے کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ سنانے کے وقت کا ابھی تعین نہیں کیا گیا ہے، ہماری تجاویز کابینہ کے پاس جائیں گی، فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے، ہم نے فیصلہ میرٹ پر دینا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ذیلی کمیٹی کسی فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی سفارش کرسکتی ہے جو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھی جائے گی۔کابینہ کا حتمی فیصلہ ہماری سفارشات دینے کے بعد ہوگا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ’جتنا جلد ممکن ہوسکے ہم اپنی تجاویز کابینہ کو بھیج دیں گے، میاں صاحب کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ کیا اسٹینڈ لیتے ہیں، ذیلی کمیٹی اپنا فیصلہ میرٹ پردے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ مشرف اور نوازشریف کے کیسز کی نوعیت الگ ہے، مشرف کے کیس میں سرکاری مشینری ن لیگ کی تھی، نوازشریف کے کیس میں سرکاری مشینری پی ٹی آئی کی ہے ، دونوں جماعتوں کے مزاج میں فرق ہے۔
خیال رہے کہ صبح 9 بجے بھی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں یہ تجویز آئی تھی کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے سیکیورٹی بانڈ مانگا جائے البتہ اس کی مالیت سامنے نہیں آئی تھی۔
بعد ازاں کمیٹی کا اجلاس رات 9 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا تھا۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں مذکورہ تجویز وزیراعظم اور کابینہ اراکین کے سامنے رکھے گئی۔
وفاقی کابینہ نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) سے نکالنے کی مشروط منظوری دے دی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ ’ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نواز شریف کو باہر جانے دینے کا فیصلہ کررہے ہیں، میں نے مکمل چھان بین کرائی ہے نوازشریف واقعی ہی بیمار ہیں‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف کو ان کی مرضی کا علاج کرانے دینا چاہیے تاہم یہ بات یقینی بنائیں کہ نوازشریف علاج کے بعد واپس آئیں۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے متعلق اپنا کردار ادا کرے، ذیلی کمیٹی شہباز شریف سے مکمل ضمانت لے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کی جانب سے سیکیورٹی بانڈ جمع کرادیا جاتا ہے تو ذیلی کمیٹی ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا اعلان کرسکتی ہے اور اب اس کے لیے وفاقی کابینہ سے مزید منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سیکیورٹی بانڈز جمع ہونے پر ذیلی کمیٹی وزارت داخلہ سے نوازشریف کانام ای سی ایل سے نکالنے کی سفارش کرے گی۔
’کمیٹی نے شریف خاندان کے نمائندوں سے نواز شریف کی واپسی کی تاریخ مانگی ہے‘
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ذیلی کمیٹی نے شریف خاندان کے نمائندوں سے نواز شریف کی واپسی کی تاریخ مانگی ہے، ان سے پوچھا ہے کہ مقدمات کی واجب الادا رقم میں سے کتنی بطور گارنٹی دے سکتے ہیں؟
شہزاد اکبر نے کہا کہ واپسی کی تاریخ اور ضمانتی بانڈز مانگنا کوئی نئی بات نہیں، عدالت بھی ضمانتی بانڈز جمع کرتی ہے، کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے بھی ای سی ایل سے نام نکالا جا سکتا ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کی حراست میں میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزاررہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کئی میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے لیکن اس کے باوجود اُن کے پلیٹیلیٹس میں اضافہ اور کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
نوازشریف کے لیے قائم میڈیکل بورڈ کے سربراہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے۔
سابق وزیراعظم کی بیماری تشخیص ہوگئی ہے اور ان کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی ہے، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگراور گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔
اسی دوران نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی اور ساتھ ہی ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی اور بعد ازاں 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں تک معطل کردی۔
خیال رہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سابق وزیراعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سزا معطلی اور ضمانت کے بعد نواز شریف کو پہلے سروسز اسپتال سے شریف میڈیکل کمپلیکس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم بعد ازاں انہیں ان کی رہائش گاہ جاتی امرا منتقل کیاگیا جہاں عارضی آئی سی یو بھی قائم کیا گیا تھا اور اب یہ خبریں آئی ہیں کہ وہ علاج کیلئے لندن جارہے ہیں۔