پاکستان

لال لال کے نعرے

فوٹو: فائل

گزشتہ دنوں لاہور کی سڑکوں پر طلبہ اور نوجوانوں کو دندناتے، نعرے لگاتے اور احتجاج کرتے دیکھا تو جوانی کی یادیں تازہ ہو گئیں، یاد آیا کہ کبھی ہم بھی طالب علم تھے اور اسی مال روڈ پر ایوب خان کی آمریت کے خلاف جلوس نکالتے، نعرے لگاتے اور پولیس کی بےدریغ لاٹھیاں کھاتے تھے۔

 طلبہ کے ساتھ نوجوانوں کا اضافہ میں نے اس لئے کیا کہ اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کیلئے احتجاجی جلوس اور دھرنے میں طلبہ کے علاوہ کچھ باہر کے نوجوان بھی گھس آئے تھے جنہوں نے نہایت ہوشیاری سے احتجاج کی قیادت سنبھالنے کی کوشش کی اور پاکستان سرخ ہے، لال لال ہے کے نعرے لگائے،گرم خون کے احتجاجوں کو دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی ایک آوارہ سا خیال یا ایک خلش ذہن میں اداسی کے بادل پھیلا دیتی ہے۔ 

بےشک ہم آمریت سے نفرت کرتے تھے اور ایوب خان کے آمرانہ نظام کے خلاف ہر سال احتجاج کرتے اور لاٹھیاں کھاتے تھے لیکن کبھی کبھی وہ آوارہ خیال مجھ سے پوچھتا ہے کیا یہی وہ جمہوریت تھی جس کے فراق میں تم غمگین رہتے اور لاٹھیاں کھاتے تھے؟ گزشتہ 70 برسوں سے ہماری محبی جمہوریت کو جاگیرداروں، گدی نشینوں اور سیاست کے ٹھیکیداروں نے اغوا کر رکھا ہے۔ ان کی صرف ایک ہی آئیڈیالوجی اور نظریاتی جہت ہے اور وہ ہے ہرصورت اقتدار میں رہنا۔

70 برسوں سے ہماری محبی جمہوریت کو جاگیرداروں، گدی نشینوں اور سیاست کے ٹھیکیداروں نے اغوا کر رکھا ہے

چنانچہ ان کے لئے وفاداریاں بدلنا، دولت کے زور پر انتخابات جیتنا اور پھر مفادات سے جھولیاں بھرنا ہی جمہوری کھیل ہے۔ اس جمہوریت نے پاکستانی عوام کو کیا دیا ہے؟ یہ ایک تکلیف دہ سوال ہے کیونکہ گزشتہ ستر سال سے عوام کی مشکلات، مسائل اور جبر میں بہتری کی کوئی شکل نمودار نہیں ہوئی۔ حکمرانوں، دانشوروں، نظریاتی ٹھیکے داروں اور دولت مندوں کو بالکل علم نہیں کہ غریب طبقہ شہروں میں عام طور پر اور دیہات میں خاص طور پر اُسی طرح کی غلامی، جبر اور محرومی کی زندگی گزار رہا ہے جس طرح کی آزادی سے قبل گزار رہا تھا۔

رہا پاکستان لال لال اور سرخ تو طلبہ کے جلوس میں یہ نعرہ سن کر مجھے محترم حنیف رامے یاد آگئے جنہوں نے پی پی پی کا وزیراعلیٰ بن کر پنجاب اسمبلی میں یہ راز فاش کیا تھا کہ ایشیا سرخ ہے۔

 وزیراعظم بھٹو اور ان کے جاگیردار ساتھیوں نے بالآخر رامے کو پی پی پی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ رامے صاحب اقتدار سے محرومی کے بعد لاہور میں فلیٹ کرائے پر ڈھونڈھتے پائے گئے۔ خدا جانے کب اُن کا ’’سرخ‘‘ نشہ اترا، مسلمانی نے باطن میں سر اُٹھایا اور عاقبت کا خیال آیا کہ زندگی کے آخری دس پندرہ برسوں میں وہ تصوف کی جانب مائل ہو گئے تھے اور صبح شام محترم و مکرم روحانی شخصیت واصف علی واصف کے قدموں میں بیٹھے پائے جاتے تھے۔ ان کی آخری کتاب بھی اسی میلان اور اپنی ’’اصل‘‘ کی جانب سفر کی روداد بیان کرتی ہے۔

اس روز طلبہ کے یونینز کی بحالی کے لئے نکالے گئے جلوس میں پاکستان لال لال کی آواز بلند ہوتے دیکھ کر میں مسکرایا اور نعرے بازوں کی معصومیت سے محظوظ ہوتا رہا۔ محظوظ اس لئے ہوتا رہا کہ ان بیچارے گرم خون کے مارے جوشیلے جوانوں کو اس وقت احساس نہیں کہ پاکستان کا ہلالی پرچم نصف سے زیادہ سبز ہے اور سبز ہی رہے گا۔

اسلام پاکستان کے خمیر میں موجود ہے اور اسے بڑی سے بڑی طاقت سرخ نہیں بنا سکتی۔ یہ چند نحیف آوازیں دس پندرہ برس بعد حنیف رامے کی مانند روحانیت کا درس لے رہی ہوں گی اور داتا دربار کے برآمدوں میں عقیدت کے پھول گردنوں میں سجائے نظر آئیں گی۔

اسلام پاکستان کے خمیر میں موجود ہے اور اسے بڑی سے بڑی طاقت سرخ نہیں بنا سکتی

 ماسوا ایک ’’سرخے‘‘ کے جو گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھ سے ایک سال جونیئر تھا۔ میں نے سبھی سرخوں اور انقلابیوں کو بڑھاپے کی منزل میں داخل ہوتے ہی مذہب کی جانب بھاگتے دیکھا ہے۔ وہ ایک شخص کون تھا؟ وہ تھا طارق علی خان، میرے مہربان بزرگ اور جاگیردار مظہر علی خان صاحب کا فرزندِ ارجمند اور پیدائشی کمیونسٹ۔ پاکستان میں رہتا تو شاید عملی طور پر مسلمان ہو جاتا لیکن وہ بی اے کرنے کے بعد ہمیں داغِ جدائی دے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لندن چلا گیا۔

 کئی کتابوں کا یہ مصنف اب بھی لندن میں بطور دانشور معروف ہے اور میڈیا کا پسندیدہ ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے 1963کے کانووکیشن میں ہم دونوں اسٹیج پر بٹھائے گئے تھے۔ اسے انگریزی کے بہترین لکھاری اور مجھے اردو کے بہترین لکھاری (Best Writer)کا ایوارڈ ملا تھا۔ طارق علی خان کمیونزم کا مبلغ تھا اور طلبہ کو بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔

 جن دنوں حنیف رامے نے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگایا انہی دنوں مرحوم و مغفور آغا شورش کاشمیری سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے ’’صفدر صاحب ہم مولوی کو گالیاں تو بہت دیتے ہیں لیکن یہ مولوی ہی ہے جس نے یہاں اسلام کو طاقتور بنائے رکھا ہے‘‘۔ 1989میں افغانستان میں روس اور پھر گورباچوف کے دور میں کمیونزم کا جنازہ نکلا تو مجھے شورش کاشمیری بہت یاد آئے۔

لال لال کا نعرہ سن کر مجھے یاد آیا کہ ایک روز میں کالج گیا تو دیکھتا ہوں کہ طارق علی کی قیادت میں ایک احتجاجی جلوس برآمد ہو رہا ہے۔ میں سمجھا یہ ایوب آمریت کا ماتم ہے لیکن جب جلوس میں شامل ہوا تو پتا چلا کہ افریقہ کے کسی ملک میں ایک مشہور کمیونسٹ لیڈر لیبامبا (Labamba)قتل ہو گیا ہے۔ یہ جلوس اس قتل کے خلاف احتجاج ہے۔ میں سمجھ گیا کہ طارق علی نے اپنے نظریاتی بھائی (کامریڈ) سے وفاداری کے تقاضے نبھائے ہیں۔ ہم مال روڈ پر پہنچے تو صحافیوں نے کچھ طلبہ سے پوچھا کہ جلوس کیوں نکال رہے ہو۔

 جواب تھا کوئی لیبامبا قتل ہو گیا ہے۔ وہ کون تھا کسی کو علم نہیں تھا۔ اس روز شاہراہ قائداعظم پر طلبہ کو لال لال کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھ کر میں نے ایک طالب علم کے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھا کہ یار یہ تو بتائو کہ یہ لال لال کیا ہے؟ اس نے کندھا اچک کر کہا کہ انکل مجھے پتا نہیں۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے نکلا اور جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگانے لگا۔

مزید خبریں :