انسانیت شرمندہ ہے

ڈاکٹر اور وکیل دونوں ہی مسیحا اور اعلی تعلیم رکھنے والے معاشرے کے اہم ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن لاہور میں کل ان کی لڑائی سے ایک ایسی تاریخ رقم ہوئی  جس کی مثال ہمیں پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔

کل وکیلوں کی دل کے اسپتال پنجاب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی پر چڑھائی اور پھر وہاں غنڈہ گردی سے بڑے بڑے قانون دان، منتظمین اور حکمران  اپنا سر شرم سےجھکا محسوس کررہے ہیں۔

تبصروں ، تجزیوں اور کالموں میں اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دیا جارہا ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے ہم جذبات اور نفرت میں اس قدر پستی کا شکار ہیں کہ اخلاقیات، قانون، روایت اور نظام کو ماننے کو تیارنہیں اور یہاں تک کہ ہم اپنی معاشرتی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔  کالے کوٹ والے ہوں یا سفید کوٹ والے، اگر گزشتہ سالوں میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ ہمیں اُس ایک ہی طبقے کے فرد دکھائی دیتے ہیں جو اپنے جذبات میں اس قدر بہہ جاتے ہیں جنہیں احتجاج کرتے ہوئے نہ تو بچوں دکھائی دیتے ہیں، نہ بزرگ  اور نہ ہی خواتین۔ یہ طبقہ نہ تو مریض دیکھتا ہے نہ ہی اور غریبوں کی اسے کوئی فکر ہے۔

کالے کوٹ پہنے قانون کے محافظ کبھی عدالتوں میں ججوں سے بدتمیزی کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی  خواتین کو دست درازی کرتے ہیں۔ یہی لوگ کبھی خود ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں تو کبھی اسپتالوں میں لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

جنگوں میں بھی کچھ اصول وضع ہیں لیکن گیارہ دسمبر میں لاہور کا واقعہ کون سا جنون ، تحریک یا جدوجہد تھی جس میں لائف لائن کاٹ دی گئی اور زندگی کی امید میں آئے مریض زندگی بچانے کے لیے اسپتال سے بھاگتے دکھائی دیے۔

قانون دان تو قانون کا سہارا لے کر لڑتا ہے لیکن یہاں دلائل سے لڑنے والے تشدد پر کیوں اتر آئے؟ کیا قانون کی لائف لائن بھی کٹ گئی ہے۔ کیا مسیحا کے دلوں سے بھی درد ختم ہوگیا کہ وہ اپنے احتجاج میں مریضوں کا علاج کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟کیا ڈاکٹروں نے کوئی تحریک چلانی تھی جو ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی تاکہ دوسرے فریق کو بے عزتی کا احساس دلا کر جذبات کو ابھارا جائے۔ یا کیا انہوں نے وائرل ویڈیو پر دوسرے فریق سے براہ راست رابطہ کرکے وضاحت کی کوشش کی؟

اسی طرح سیکڑوں وکلا ایک طویل راستہ پیدل طے کرکے اسپتال تک پہنچے مگر انتظامیہ اور صوبائی حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ تنازع کیا رخ اختیار کررہا ہے؟ ادارے اس صورت حال کو اپنی انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیوں نہیں بھانپ سکے؟ پولیس کس وجہ سے خوفزدہ رہی ضلعی انتظامیہ کوئی کردار ادا کیوں نہیں کرسکی؟

قیمتی جانوں کے ضیاع کا ازالہ نہیں ہوسکتا لیکن حکومت کو چاہیے کہ جو سانحہ ہوا ہے اس کے ذمہ داروں کو گرفت میں لانے کے ساتھ معاشرےمیں برداشت اور اخلاقیات کو بچانے کا بھرپور پیغام بھی دے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔