13 دسمبر ، 2019
برطانیہ کے عام انتخابات میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی نے واضح اکثریت سے تاریخی کامیابی حاصل کرلی ہے۔
الیکشن سے قبل برطانیہ کی دوبڑی روایتی حریف جماعتوں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی میں سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی تاہم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی 365 سیٹیں جیت کر دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) میں تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
کنزرویٹو پارٹی کو 365 نشستوں کے ساتھ ایوان نمائندگان میں دیگر پارٹیوں پر 80 سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں 650 انتخابی حلقے ہیں جب کہ حکومت بنانے کے لیے دارالعوام میں 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔
یہ کنزرویٹو پارٹی کی 1987 کے بعد سے سادہ اکثریت سے دوسری بڑی کامیابی ہے جب مارگریٹ تھیچرتیسری مرتبہ برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔
بورس جانسن نے تاریخی فتح اور الیکشن میں واضح برتری حاصل ہونے کے بعد بکنگھم پیلس میں جا کر ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اور ان سے نئی حکومت بنانے کی درخواست کی۔
بورس جانسن کا کہنا ہے کہ عوام نے یہ مینڈیٹ یورپی یونین سے نکلنے کےلیے دیا ہے اس لیے برطانیہ آئندہ ماہ یورپی یونین چھوڑ دے گا۔
بورس جانسن کا مزید کہنا ہے کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورا اُترنے کے لیے دن رات کام کریں گے۔
دوسری جانب لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کاربن نے انتخابات میں شکست پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لیبر پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
انہوں نے برطانوی میڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ انہیں میڈیا کی جانب سے ذاتی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔
برطانوی میڈیا کے مطابق اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی لیبر پارٹی203 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
جب کہ دیگر جماعتوں میں اسکاٹش نیشنل پارٹی نے 48، لبرل ڈیموکریٹس 11اورڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی نے 8 نسشتیں جیتی ہیں۔
واضح رہے کہ ان انتخابات میں تمام جماعتوں کے وعدوں کا اصل ہدف بریگزٹ تھا جب کہ بورس جانسن نے بھی قبل از وقت انتخابات مزید نشستیں حاصل کرنے کی امید سے کروائے تھے تاکہ وہ باآسانی سے بریگزٹ کو اختتام تک پہنچا سکیں۔
'ہم بریگزٹ کریں'
کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے برٹش پاکستانی لارڈ طارق اور بیرونس نوشینہ مبارک نے کہا ہے کہ عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے کہ ہم بریگزٹ کریں۔
ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام بریگزٹ پارٹی کے صدر نائجیل فراج نے کہا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے دوسرے ریفرنڈم کو روکنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے بریگزٹ کو دوبارہ راہ پر گامزن کیا، اگر اب بھی برطانیہ بریگزٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو سمجھیں گے کہ ہم کامیاب ہوئے۔
بریگزٹ کے معاملے پر عوام تنگ آ گئے تھے: رہنما لیبر پارٹی
لیبر پارٹی کے رہنما جون میک ڈونل کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ بریگزٹ کے معاملے پر عوام تنگ آ گئے تھے، لوگ چاہتے تھے یہ ہو اور جان چھوٹ جائے۔
لیبر پارٹی کے برطانوی نژاد پاکستانی رہنما خالد محمود نے نتائج کو پارٹی کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔
'بریگزٹ نے انتخابات میں ہینڈ گرینیڈ کا کردار ادا کیا'
لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما جیکی پیئرسٹ نے ایگزٹ پول پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ نے برطانوی انتخابات میں ہینڈ گرینیڈ کا کردار ادا کیا۔ حکمران جماعت نے جو وعدے کر رکھے ہیں انہیں عملی جامہ پہنانا ناممکن ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کر کے دکھاتے ہیں۔
لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے برٹش پاکستانی لارڈ قربان حسین نے پارٹی کی شکست پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
'اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی'
اسکاٹش نیشنل پارٹی کی تسلیمہ شیخ نے کہا کہ اسکاٹ لینڈ میں ایس این پی کی فتح کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلمان ووٹرز کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، 30 لاکھ سے زائد برطانوی مسلمان، عیسائیوں کے بعد برطانیہ کی دوسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔
ان انتخابات میں پہلی بار کل 70 مسلمان امیدواروں نے حصہ لیا جب کہ گذشتہ انتخابات میں یہ تعداد 47 تھی۔
ان امیدواروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان ، بنگلا دیش اور کُرد نسل سے ہے۔
15 پاکستانی نژاد اپنی نشستوں پر کامیاب
برطانیہ کے عام انتخابات میں 15 پاکستانی نژاد امیدوار بھی کامیاب رہے ہیں۔
ان میں سب سے اہم ساجد جاوید ہیں جو برُومز گرُوو کے حلقے سے کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔
آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی نصرت غنی کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر ویلڈن کے حلقے سے فتح مند رہیں۔
پاکستان نژاد عمران ناصر خان نے کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر ویک فیلڈ کے حلقے سے کامیابی حاصل کی۔ اس حلقے میں پچھلے 90 برسوں کے دوران کبھی کوئی کنزرویٹو امیدوار کام یاب نہیں ہوا تھا، مگر عمران ناصر خان نے تاریخ رقم کی۔
گننگھم اینڈ رینھم کے حلقے سے رحمان چشتی کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ پھر منتخب ہوئے جبکہ میریڈن کے حلقے سے ثاقب بھٹی کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر جیت گئے۔
ناز شاہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر بریڈفورڈ ویسٹ کے حلقے سے منتخب ہوگئی ہیں۔ آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والے خالد محمود لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر برمنگھم پیری بار کے حلقے سے منتخب ہوئے۔
گجرات شہر میں پیدا ہونے والی یاسمین قریشی لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کام یاب ہوئیں، پاکستان نژاد محمد افضل خان لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر نارتھ ویسٹ انگلینڈ سے جیت گئے۔
طاہر علی لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر برمنگھم ہال گرین کے حلقے سے کام یاب ٹھہرے میرپور آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والے محمد یاسین لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر بریڈفورڈ کے حلقے سے منتخب ہوئے، بریڈفورڈ ایسٹ کے حلقے سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر عمران حسین کام یاب ہوئے۔
کوونٹری ساؤتھ کے حلقے سے لیبر پارٹی نے زارا سلطانہ کو ٹکٹ دیا جو کام یاب رہیں۔ برمنگھم لیڈی ووڈ کے حلقے سے شبانہ محمود لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کام یاب ہو گئیں۔
روزینہ ایلن خان لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر ٹوٹنگ کے حلقے سے کام یاب ہوئیں، ٹوٹنگ کا یہ حلقہ وہی حلقہ ہے جہاں سے لندن کے میئر اور لیبر رہ نما صادق خان جیتا کرتے تھے۔
عام انتخابات 2019 کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس بار ریکارڈ تعداد میں خواتین پارلیمنٹ میں پہنچی ہیں۔
انتخابات کے نتائج کے بعد 220 خواتین ممبر پارلیمان منتخب ہو چکی ہیں جب کہ 2017 میں یہ تعداد 208 تھی۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں گزشتہ 5 سال کے دوران یہ تیسری مرتبہ عام انتخابات ہوئے ہیں۔
برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد جب کہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔
ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔
وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا تاہم وہ اس میں ناکام ہو چکے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ دو مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بنا چکی ہے جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کا وقت دیتے ہوئے 31 جنوری تک توسیع کی منظوری دی ہے جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا ہے۔
بریگزٹ ڈیل میں سب سے اہم معاملہ برطانوی شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان کسٹم قوانین کا ہے جس پر برطانوی سیاسی جماعتوں میں اختلافات رہے ہیں۔