پاکستان

فرشتہ خصلت انسان

فوٹو: فائل

چند دن قبل میرے نہایت عزیز دوست و پڑوسی ایڈووکیٹ سجاد چیمہ تشریف لائے۔ وہ اَپنے ساتھ اپنے قریبی عزیز پروفیسر ڈاکٹر منیر احمد چیمہ کو لے آئے۔ اُن سے مل کر بےحد خوشی ہوئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہ انسانی شکل میں فرشتہ ہیں، محبِ وطن، انسان دوست، نرم گفتگو اور معلومات سے پُر شخصیت کے مالک ہیں۔

 پہلے مگر بھائی سجاد چیمہ کی جانب، سجاد چیمہ کے والد جسٹس محمد افضل چیمہ مرحوم خود ایک فرشتہ خصلت انسان تھے۔ ایوب خان کے دور میں وہ نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے۔ جج ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ، وفاقی سیکرٹری قانون، جج سپریم کورٹ آف پاکستان، چیئرمین کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی، سیکرٹری جنرل ایشین برانچ آف رابطہ العالم الاسلامی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

اس کے علاوہ اُنہوں نے کشمیرکے جہاد کے لئے اعلیٰ خدمات انجام دیں جو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر منیر احمد چیمہ صاحب نے مجھے دو کتابیں دیں ایک کا نام Death, reflection of a surgeon اور دوسری کتاب کا نام Ramblings -An insight into human demeanor ہے۔

پہلے چند الفاظ ڈاکٹر منیر احمد کے بارے میں۔ جب سجاد چیمہ اُن کو لے کر آئے تو اُنہوں نے اُن کاتعارف کرایا۔ وہ نہایت نرم گو، علاج و معالجہ اور حالات حاضرہ، ثقافت و ادب پر مکمل عبور رکھنے والے، ماشاء اللہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔

یہ مناسب ہوگا کہ میں پہلے اُن کے بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن تھامس کا تبصرہ بیان کروں۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ کتاب بہت رواں اور نفیس ہے۔ میں اس کو پڑھتے پڑھتے اس میں کھو گیا۔ میں بالکل مسحور ہو کر اس کتاب کو ختم کرکے ہی اُٹھا اور یہ سوچتا رہا کہ یہ کتنا نادر موقع ہوتا ہے کہ آپ کو وہ کچھ پڑھنے کے لئے ملے جو کہ دلچسپ بھی ہو اور سبق آموز بھی۔

کتاب کے ٹائٹل کے بالکل برخلاف اس کتاب میں موت کے بجائے زندگی پر زیادہ لکھا گیا ہے۔ بلاشبہ کتاب عقل و فہم سے بھرپور ہے۔ خاص طور پر کہ آخری منطقی سفر کے بارے میں جو ہم سب ہی لیں گے لیکن اس کتاب میں جو غیررسمی اور چٹکلوں والی باتیں یہ بتاتی ہیں کہ موت کو کس طرح دیکھنا چاہئے، زندگی کے دور میں‘‘۔

 آگے اسی کتاب کے پچھلے فلیپ پر یہ درج ہے کہ باوجود ایک مغرور اور لوہے کی مانند سخت سرجن، ایک سینئر پروفیسر اور فوج میں بریگیڈیئر ہونے کے، ڈاکٹر چیمہ تہہ دل سے ایک اعلیٰ سرجن ہیں، اُن کی زندگی کا مقصد صرف یہ ہے کہ مریضوں کے ساتھ رہنا اور مرنا اور دوستوں کے ساتھ رہنا وغیرہ۔

بعض اوقات یہ ہمدردی اُن کے پیشہ پر سایہ ڈال دیتی ہے کیونکہ اُن کاپیشہ نہایت ہی نازک، سنجیدہ اور مشکل ہے۔ اُنہوں نے اپنی تعلیم اور تجربہ پاکستان اور انگلستان میں حاصل کیا اور پیشہ کے دوران تمام زندگی اپنا فرض اور دلچسپ واقعات کو جمع کرنے میں گزاری۔

اس کتاب میں اُنہوں نے اپنے ذاتی تجربوں کو بیان کیا ہے جن کا تعلق زندگی اور موت سے ہے۔ وہ ایک قصّہ کچھ نمک مرچ لگا کر نمود و نمائش کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور پھر اس کو پڑھنے والے کے تصّور پر چھوڑ دیتے ہیں۔

پہلی کتاب ایک خزینہ معلومات و واقعات ہے۔ چھوٹے چھوٹے باب (Chapters) کے شروع میں کوئی اچھا سا کوٹیشن، کہاوت یا خوبصورت اردو کا شعر یا قطعہ بیان کیا ہے جو ڈاکٹر منیر احمد چیمہ کے اعلیٰ ذوق کی ترجمانی کرتا ہے۔

جنرل ملک شوکت حسین کا باب بہت دلچسپ اور تکلیف دہ بھی ہے۔ اتفاقاً میں بھی جنرل شوکت سے واقف ہوں۔ ایک روز میں جناب علوی صاحب آرکیٹکٹ کے پاس چاندنی چوک میں اُن کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ جنرل شوکت آگئے وہ بھی اپنے گھر کے نقشہ کی تیاری کے معاملہ میں آئے تھے اور میں بھی اپنے گھر کے نقشہ کے لئے گیا تھا۔

باتوں باتوں میں جنرل شوکت نے کہا کہ وہ پچھلے دن بھٹو صاحب سے ملنے گئے تھے کہ اُن کی صحت کے بارے میں رپورٹ دوں۔ اُنہوں نے کہا جب میں نے بھٹو صاحب کو دیکھا تو بےحد دُکھ ہوا اور میرا خون کھول گیا کہ سابق صدر اور وزیراعظم کے ساتھ یہ سلوک۔

اُن کے مسوڑے سوجے ہوئے تھے اور اُن سے خون نکل رہا تھا۔ اُن کے چہرے اور ہاتھوں پر مچھروں کے کاٹنے سے زخم بن گئے تھے اور ان میں پیپ بن گئی تھی۔ کہا کہ میں وہاں سے سیدھا جی ایچ کیو ضیاء الحق کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ جو سلوک تم اپنے، فوج اور فوجیوں کے محسن کے ساتھ کررہے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور اس کی سزا دے گا، تم اِس کے عتاب سے بچ نہیں سکو گے، کہنے لگے کہ وہ مسکراتا رہا اور میں چلا آیا۔ چند دن بعد ضیاء الحق نے اُن کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی چھٹی کردی اور اُس کے خود کے انجام سے ہم سب واقف ہیں۔

پوری کتاب اُن کی عملی زندگی کے واقعات سے پُر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنی جوانی میں ڈاکٹر منیر احمد چیمہ صنف نازک میں بہت مقبول ہونگے۔ ایسا حسین، دراز قد، پھولوں کے جھڑنے جیسی باتیں کرنے والے پر کون سی لڑکی ڈورے نہ ڈالتی ہوگی۔

(2) دوسری کتاب (Ramblings) بھی ایک اعلیٰ کتاب خزینۂ معلومات ہے۔ اِس کے دو حصّے ہیں اور ہر حصّہ کا دیباچہ ہارورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسروں نے لکھا ہے۔

پہلے حصّہ میں ڈاکٹر چیمہ اپنے تجربوں پر روشنی ڈالتے ہیں اور دوسرے حصّہ میں وہ یہ بتلاتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے تجربوں سے کیا سیکھا۔ ڈاکٹر چیمہ نے چونکہ 25سے زیادہ برس فوج میں کام کیا تھا اور بریگیڈیئر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے، اِس لئے وہ ڈسپلن کے معاملہ میں سخت اور وقت کے بےحد پابند ہیں۔

آج بھی وہ ماشاء اللہ ایک مفید مصروف زندگی گزار رہے ہیں اور ضرورت مندوں کی خدمت کررہے ہیں، اللہ پاک ان کو تندرست اور خوش و خرم رکھے، حفظ و امان میں رکھے اور عمر دراز کرے۔ آمین!

مزید خبریں :