’’پیڑی استاد‘‘

سیاستدان ہوں یا چمیڑو، اُن کی فتح و شکست کا واحد نعرہ آ بُو کاٹا سے آ غدار جاوے ای جاوے، آغدار آوے ای آوے پر ختم ہوتا ہے— فوٹو فائل 

پتنگ بازی اور سیاست بازی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، پتنگ باز اور سیاست باز دونوں ہی داؤ پیچ ذہانت، شرارت کے ماہر کہلاتے ہیں۔ اگر آپ پتنگ بازی کے فن سے آشنا ہیں تو پھر سیاست بازی کا کھیل آپ کی سمجھ میں آسانی سے آہی جائے گا۔

پتنگ بازی کی اصطلاح میں ایک بار ڈور کا پِنا ہاتھ سے اُچھل جائے تو پھر اُسے سنبھالنا یا سلجھانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے اور پھر ایسے ایسے گنجل پڑتے ہیں کہ ڈور ہی ٹوٹے ٹوٹے ہو جاتی ہے اور گرہ لگی ڈور کبھی بھی مخالف کا بُو کاٹا نہیں کر سکتی۔ پنجاب میں پتنگ بازی کا شغل اگرچہ شہباز دور کا قصۂ پارینہ بن چکا اور یہ روایتی ثقافتی شغل اپنی موت آپ مر گیا مگر آج بھی کچھ منچلے چوری چھپے پتنگیں اُڑانے، پیچ لگانے سے باز نہیں آتے۔

کچھ منچلے تو محض اپنے ذوق و شوق کی تسکین کی خاطر پتنگیں اُڑاتے ہیں تو کچھ شرپسند دھاتی، کیمیکل زدہ زہریلی قاتل ڈور سے معصوم شہریوں کی جانیں بھی لے جاتے ہیں اور ہماری خاموش سرکار کسی بھی صورت ایسے شرپسندوں کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اگر کوئی دیوانہ پتنگ باز سجنا پکڑا بھی جائے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لانے اور سزا دلوانے کی کوئی واضح مثال نہیں ملتی۔

پتنگ بازی کے شوق میں ایک شغل کٹی پتنگ لوٹنا یا کسی کی اڑتی پتنگ کو دھاتی ڈور سے چمیڑنا بھی کمال مہارت کا کام ہے۔ اس مہارت میں عبور رکھنے والے کو علاقے کے لوگ ’’چمیڑو‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں اور ماہر پتنگ باز ہمیشہ چمیڑو سے خوفزدہ اور محتاط رہنے کی کوشش کرتے ہیں مگر شاذو نادر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ وہ اس چمیڑو سے بچ پائے ہوں۔

ماضی کی یادوں میں کئی منچلے تو ایسے بھی تھے جو پتنگ بازی اور چمیڑو کی صلاحیتیں تو نہیں رکھتے تھے مگر پنگے بازی سے بھی باز نہیں آتے تھے اور وہ پانی میں گیلے دھاگے سے ’’شُرلے‘‘ اُڑا کر بڑے بڑے پتنگ بازوں کی قیمتی اور تیز دھار ڈور کی تمام تر کاٹ اور طاقت کو ایسا نرم کرتے کہ وہ کسی دوسرے سے پیچ لگانے کے قابل ہی نہیں رہتی تھی۔ ماہر پتنگ باز ہمیشہ اپنی مہارت، دائو پیچ سے میلوں دور تک مقابلے بازی کا شوق پورا کرتے اور مخالف کی اڑتی پتنگ کو کاٹ کر آ، بُو کاٹا کا ایسا نعرہ بلند کرتے کہ پورے علاقے میں جشن کی گونج ہو۔

سیاست کا کھیل بھی پتنگ بازی کی طرح رنگ برنگا داؤ پیچ، مہارتوں سے بھرا ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ سیاستدان ہوں یا چمیڑو، اُن کی فتح و شکست کا واحد نعرہ آ بُو کاٹا سے آ غدار جاوے ای جاوے، آغدار آوے ای آوے پر ختم ہوتا ہے۔

پاکستان کی 73سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم بابائے قوم کے بعد سے اب تک صرف دوراہے پر ہی کھڑے نظر آتے ہیں اور ایسے ڈھیٹ ہیں کہ نہ اس دوراہے سے آگے کسی کنویں میں گرتے ہیں نہ پیچھے ہٹنے کوتیار ہیں اور نہ ہی ہم اپنے تلخ ماضی سے کوئی سبق سیکھتے ہیں۔

دوراہے پر کھڑی اس قوم کو سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں ایک بار دھکا بھی مارا گیا مگر یہ قوم ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں اور آج تک دوراہے پر ہی کھڑی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ اور ٹوپی مارکہ جمہوریت کا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ ہم نے صرف غداری کے جعلی سرٹیفکیٹس ہی بانٹے، کسی کو حب الوطنی کا تمغۂ شجاعت عطا نہیں کیا۔

حکمران ہمیشہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قانون کی پاس داری کا حلف تو اٹھاتے ہیں مگر پہلا کام ملکی معیشت کی بربادی کا رونا روتے اور ڈوبتی کشتی میں سوراخ ڈالنے کا الزام سابق حکمرانوں پر ڈالنے سے شروع کرتے ہیں اور پھر خود ہی اس کشتی کی سواری میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں، کرپشن کے الزامات، مقدمات اور احتساب کا یہ ڈرامہ دہائیوں سے رچایا جارہا ہے اور شاید آئندہ بھی جاری رہے گا۔

حکمران اپوزیشن کو دبائو میں لانے کے لئے دائو پیچ لگاتے رہے اور اپوزیشن حکمرانوں کو چور، ڈاکو، لٹیرے ثابت کرنے پر زور لگاتی رہی۔ اس سیاسی رنگ بازی میں صرف غدار آوے تے غدار جاوے کے نعروں میں ملک و قوم کا بُوکاٹا کیا گیا اور فائدہ کٹی پتنگ لوٹنے یا چمیڑو نے ہی اٹھایا۔

نتیجہ کیا نکلا، شیخیاں بھگارنے، ڈھینگیں مارنے پنجابی میں ’’چھڈو‘‘ ہم پر مسلط کردیئے گئے جو ریت پر ہوائی قلعے بناتے اور خود ہی ٹانگ مار کر گرا دیتے ہیں ، دنیا ایسے چھڈو کو بھاڑے کا ٹٹو، بےاعتبارا کہتی ہے۔ بےاعتبارے کو دھوکے باز نہ کہا جائے تو کیا کہیں؟

بےاعتبارے پر اعتبار کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں، جب بات دھوکے باز تک پہنچتی ہے تو دھوکے باز پکڑا جائے تو دھند زدہ موسم میں بہت دور سے ایک بڑا موڑ لینا پڑتا ہے اور بعض اوقات دھندلکوں میں موڑ لینے کی کوشش میں ایسا نقصان ہوتا ہے کہ یا تو انسان اصل راستے سے بھٹک جائے یا گاڑی ہی دیوار میں دے مارے اور ایسے میں ریسکیو 1122کا آنا تو بنتا ہی ہے۔

بس یوں سمجھئے بڑے مولانا صاحب کے دھرنے کے آفٹر شاکس بڑی شدت سے زمین کو دہلا رہے ہیں اور بڑے بڑے سیاسی پہلوان شدید سردی کے موسم میں جیلوں سے نکل کر اپنی لندن، کراچی کی پناہ گاہوں میں نرم گرم بستروں میں لیٹے بڑی خاموشی سے اگلے معرکے کی تیاریوں کے لئے تیل مالش کیے تماشا انجوائے کررہے ہیں اور ایسے وقت کے انتظار میں ہیں کہ سیاسی اکھاڑہ ایک بار پھر تیار ہو اور وہ لنگر لنگوٹ کسے میدان میں کُود پڑیں۔

دیکھتے ہیں ان کی سیاسی مہارت کام آتی ہے یا کوئی چمیڑو ان کی کٹی پتنگ لوٹ کر آ غدار جاوے ای جاوے یا آوے ای آوے کانعرہ بلند کرتا ہے۔ ویسے تو بظاہر ایک ’’شُرلے‘‘ کی گیلی ڈور نے بڑے بڑے ماہر پتنگ بازوں کی ڈور کی طاقت اور کاٹ نرم تو کردی ہے مگر ڈر یہ ہے کہ کوئی نیا پنگا دھنگا نہ ہو جائے۔

ایسے میں ’’پیڑی استاد‘‘ کا کردار بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے چونکہ منصفی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔

مزید خبریں :