بلاگ
Time 01 جنوری ، 2020

کشمیر اور افغانستان 2020 میں

فوٹو: فائل

تقسیم ہند کے بعد کشمیریوں کو توقع تھی کہ پاکستان کی کوششوں سے جلد یا بدیر اُن کو آزادی کی نعمت نصیب ہو جائے گی لیکن ہندوستان کی ہٹ دھرمی سے ایسا نہ ہو سکا، پھر وہ توقع لگا بیٹھے کہ جنگ کے ذریعے پاکستان اُن کو اپنے جسم کا حصہ بنا لے گا لیکن دو جنگوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔

90کی دہائی میں وہاں کے نوجوانوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، آزاد جموں و کشمیر اس کے لئے بیس کیمپ بن گیا، توقع یہ تھی کہ کشمیر کی مسلح جدوجہد کا زخم ہندوستان زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے گا اور مجبور ہو کر وہ حل کی طرف آئے گا۔

اس مسلح اور اس سے متوازی حریت کانفرنس کی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے کشمیر نے کسی حد تک عالمی توجہ حاصل کرلی اور امید پیدا ہوئی کہ عالمی برادری بھی ہندوستان کو حل کے لئے مجبور کردے گا لیکن نائن الیون کے بعد فضا ایسی بن گئی کہ مسلح جدوجہد کے آپشن کو مزید استعمال کرنا مشکل تر بنتا گیا جبکہ اب تقریباً ناممکن ہوتا جارہا ہے۔

تاہم وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں جو خالص داخلی اور مظلومانہ سیاسی تحریک شروع ہوئی، اُس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار عالمی سطح پر توجہ حاصل کر گیا اور ہندوستان پر دباؤ بڑھنے لگا۔

یوں کشمیر کے مسئلے کو جتنی عالمی توجہ 2019میں حاصل ہوئی، اتنی ماضی قریب میں کبھی نہیں ملی تھی لیکن مودی سرکار نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور اگست 2019میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے وہاں تاریخ کا سب سے طویل المدت کرفیو نافذ کردیا۔

اس اقدام نے تاریخ میں پہلی بار مقبوضہ جموں و کشمیر کی فاروق عبداللہ جیسی اس قیادت کو بھی حریت کانفرنس کے ہم آواز بنا دیا جو ماضی میں ہندوستان کی ہمنوا تھی، گویا مقبوضہ کشمیر کی ہر طرح کی قیادت پہلی مرتبہ ہندوستان کے خلاف یک زبان ہوگئی اور عالمی برادری شدت کے ساتھ متوجہ ہوئی۔

اور تو اور امریکی اور برطانوی میڈیا بھی ہندوستان کی حکومت پر تبرا بھیجنے لگا۔ اسی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ انڈیا نے فل ٹاس دے دیا ہے اور اب اس پر چھکا لگانا ہمارا کام ہے لیکن افسوس کہ پاکستانی حکومت اس موقع سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھا سکی۔

پہلی غلطی پاکستان سے یہ ہوئی کہ پالیسی سازوں نے امریکہ کے ارادوں یا رجحان کا غلط اندازہ لگایا اور دوسری اس پر حد سے زیادہ انحصار کیا۔ پاکستانی قیادت کا خیال تھا کہ چونکہ افغانستان کے فرنٹ پر ہم امریکہ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں، اس لئے وہ مشرقی فرنٹ یعنی کشمیر پر پاکستان کی مدد کرئے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں دیئے گئے کردار کو پاکستان پر احسان سمجھ رہے تھے اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ جواب میں وہ مشرقی بارڈر پر ہندوستان کو خوش کریں گے۔

شاید انہوں نے اس تناظر میں ثالثی کی بات کی تھی لیکن وزیراعظم عمران خان الٹ توقع لگائے بیٹھے تھے، دوسری طرف چین کی کوششوں سے بلائے گئے سلامتی کونسل کے غیررسمی اجلاس سے ہندوستان کے خلاف قرارداد کو امریکہ نے پاس نہ ہونے دیا۔

عالمی برادری تو کیا ساتھ دیتی الٹا او آئی سی کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا جاسکا۔ اس تناظر میں سرحد کے دونوں طرف کشمیریوں کی صفوں میں ایک عجیب بےچینی جنم لینے لگی ہے۔

2020میں پاکستان کے لئے سب سے بڑا سفارتی چیلنج یہ ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسا بیانیہ سامنے لائے جو کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لئے امید کا باعث ہو اور کم از کم بیانئے کی حد تک لوگ اس کو ایک قابلِ عمل بیانیہ سمجھیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جس حکومت نے مودی سرکار کی طرف دیئے گئے فل ٹاس پر چھکا یا چوکا تو درکنار ایک رنز بھی نہ بنایا ہو، کیا وہ کشمیر کے حوالے سے نئے بیانیے کی تشکیل کا یہ مشکل کام کرسکے گی؟

کشمیر کے بعد خارجہ پالیسی کا دوسرا اہم ایشو جس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، افغانستان ہے، گزشتہ سال کے دوران امریکہ اور طالبان کے مذاکرات آخری مرحلے تک پہنچے پھر ختم ہوئے اور اب پھر شروع ہوئے ہیں۔

امریکہ کا اصرار ہے کہ پاکستان دباؤ ڈال کر طالبان کو جنگ بندی کے لئے آمادہ کرے لیکن طالبان سردست اس کے لئے آمادہ نظر نہیں آتے، اگر ایسا ہو بھی گیا یا پھر جنگ بندی کے بجائے جنگ کی شدت میں کمی پر بات بن گئی تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

اس کے بعد مشکل مرحلہ افغان حکومت اور طالبان کی مفاہمت کا درپیش ہوگا جو امریکہ اور طالبان کی مفاہمت سے زیادہ مشکل ہے۔ دوسری طرف جس افغان حکومت سے ڈیل ہونی ہے، وہ خود تنازعات کی شکار ہے چنانچہ اب دو امکانات ہیں یا تو امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہو جائے اور امریکہ افغانوں کو اس کے حال پر چھوڑ کر نکل جائے، یا پھر یہ کہ طالبان سے بھی بات نہ بنے اور امریکہ یوں ہی بھاگ نکلے۔

دونوں صورتوں میں افغانستان اور نتیجتاً پاکستان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ امن کا واحد راستہ یہ ہے کہ بین الافغان مفاہمت ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان امریکہ سے افغانستان میں اپنے لئے کردار کا مطالبہ کرتا رہا لیکن وہ انکاری تھا۔

2019میں امریکہ نہ صرف پاکستان کو کردار دینے پر آمادہ ہوگیا بلکہ ڈرائیونگ سیٹ بھی دےڈالی، چنانچہ 2020میں افغانستان کے فرنٹ پر پاکستان کے لئے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ بیک وقت طالبان اور افغان حکومت کا اعتماد کیسے برقرار رکھے اور دونوں کی مفاہمت کا راستہ کیسے نکالے۔

اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ امریکہ کو کیسے اپنے رول کے بارے میں اس طرح مطمئن رکھا جائے کہ طالبان بھی ناراض نہ ہوں اور اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات سے اپنے آپ کو کیسے باہر رکھا جائے اور اگر وہاں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کے اثرات سے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔ یہاں پھر سوال یہ ہے کہ کشمیر اور دوست ممالک کے ساتھ معاملات کو اس قدر خراب کرنے والی پاکستانی حکومت کیا یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ افغانستان کے فرنٹ پر مذکورہ چیلنجز سے بخوبی نمٹ سکے؟۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔