پاکستان
Time 05 جنوری ، 2020

مولانا فضل الرحمان کا آرمی ایکٹ کی قانون سازی میں حصہ نہ لینے کا اعلان

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی -ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آرمی ایکٹ کی قانون سازی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین چوہدری پرویز الٰہی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کو سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے قوانین پر منانے ان کی رہائش گاہ پہنچے تاہم وہ ان کو منانے میں ناکام رہے۔

 ملاقات کے بعد چوہدری برادران میڈیا کا سامنا کیے بغیر چلتے بنے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سب کو پتہ ہے چوہدری برادران کیوں آئے تھے مگر ہم اس قانون کو ووٹ نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ساری اپوزيشن کا ماننا ہے کہ یہ اسمبلی جعلی ہے، جے یو آئی ف اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اس اسمبلی کے قانون سازی کا حق تسلیم نہیں کررہی، عملی انداز کیا ہوگا اس پر غور کررہے۔

سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی آپشن کی طرف جاسکتے ہيں لیکن حمایت نہیں ہوسکتی، مخالفت میں ووٹ دینے یا غیر جانبدار رہنے پر غور کررہے ہیں، آئندہ کی قانون سازی پر کیس ٹو کیس دیکھیں گے۔

 'ن لیگ کی طرف سے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا'

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر اپوزیشن کی تقسیم  کے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے شہبازشریف کو فون کرکے شکوہ کیا ہے کہ ن لیگ کی طرف سے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جس پر انہوں نے اب رابطے کرنے کا کہا ہے۔

یاد رہے کہ  اس سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق بھی حکومتی بل کی حمایت سے انکار کرچکے ہیں۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کل 6 جنوری کو ہوں گے جب کہ اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس بھی کل دوبارہ ہوگا  جس میں آرمی، ائیر فورس اور نیوی ایکٹس میں ترامیم دوبارہ زیرغور آئیں گی۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے گزشتہ اجلاس کی کارروائی غلط طریقہ کار سے چلائی تھی، پارلیمانی سیکریٹری قائمہ کمیٹی اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتا۔

 قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع سے آرمی ایکٹ میں ترمیم  کی منظوری کے بعد اسے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کیا ہے؟

یکم جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیاگیا ہے۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے چیپٹرکا اضافہ کیا گیا ہے، اس نئے چیپٹر کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔

اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقررکی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا، آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔

'دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی'

ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔

علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :