09 فروری ، 2020
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو قدرت کی تمام تر فیاضیوں و عنایتوں کا نمونہ ہے، بہترین محلِ وقوع، وسیع سمندر، عریض جنگلات، قدرتی وسائل سے لیکر افرادی قوت تک کیا ہے جو اس ملک میں نہیں؟لیکن اس کے باوجود قومی یکجہتی، مذہبی رواداری، قومی حقوق، لسانی مسائل یعنی باہم ایک لڑی میں پرونے والے اجزائے ترکیبی پر بار بار سوال اُٹھائے جاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں عوام ’جسدِ واحد‘ ہونے کے حوالے سے یکسو نہیں تو وہاں مقتدرہ کو بھی سکون میسر نہیں۔
ایک شہری کے ناتے جب جب ہم حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی کم علمی کے تناظر میں جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ کہ حقیقت میں کسی بھی حوالے سے کوئی تضاد نہیں، لیکن ایک تو ہمارے اطراف ’فروعی خوف و مفروضوں‘ نے گھیرے ڈال رکھے ہیں اور دوسری جانب جو سیاسی میدان میں مقابلے کی اہلیت و صلاحیت سے عاری ہیں وہ ان مفروضوں کو تہذیبی قضیہ بنائے ہوئے ہیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہیجان و عدم اعتماد کے ایسے ماحول میں قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں۔ سامنے کی بات ہے کہ دنیا تو خیر دنیا، ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک یہاں تک کہ بنگلا دیش کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے لیکن ہم ہیں کہ تاحال اس بحث سے ہی فارغ نہ ہو سکے کہ کون محبِ وطن ہے اور کون غدار۔
خیر وقتِ دوراں جہاں ہنگامہ خیز اور غریب عوام کیلئے قیامت خیز ہے وہاں اب اس موہوم و ناقابلِ ادراک خوف سے نکلنے کیلئے ہرسُو، سوچا جا رہا ہے۔
دورِ موجود کا انقلاب یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں بالخصوص پنجاب کے نوجوان وسعتِ نظر و کشادہ جگر لیے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں ہمیں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر ساجد ترین سے 25برس بعد قصرِ ناز کراچی میں ملاقات کے تناظر میں یاد آئیں۔
جب میں اپنے وکیل دوستوں قادر خان اور شمروز خان کے ہمراہ ساجد ترین سے ملنے جا رہا تھا تو قلب و نظر میں طلبہ سیاست کا درخشاں دور جواں سال گویا انگڑائی لینے لگا، بقول فیضؔ صاحب
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام
بلوچستان ہائیکورٹ بار کے سابق صدر ساجد ترین بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اُس کور کمیٹی کے رکن ہیں جس نے وفاقی حکومت سے 6نکات پر مشروط اتحاد کر رکھا ہے۔
ان میں لاپتا افراد کی بازیابی، گوادر سے متعلق آئینی قانون سازی، بلوچستان کیلئے فیڈرل سروسز کوٹہ، افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، گوادر پورٹ کا مکمل اختیار بلوچستان حکومت کو دینے اور وفاقی بجٹ میں بلوچستان کیلئے ترقیاتی اسکیمیں شامل کرنا ہے۔
ساجد ترین کے بقول پی ٹی آئی نے ان 6نکات کو قانونی اور آئینی طور پر قبول کیا ہے اور ان پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ معاہدے کے بعد 570سے زیادہ لاپتا افراد واپس آئے ہیں۔
جن میں طویل عرصے سے لاپتا افراد بھی شامل ہیں۔ ملاقات کے دوان یہ بات محسوس کی گئی کہ بی این پی ماضی کی تمام تر ناانصافیوں کے باوجود کس قدر ملکی سلامتی و ترقی کیلئے فکر مند ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سردار اختر مینگل کے بڑے بھائی اسد مینگل کے اغوا و قتل سے متعلق بھٹو صاحب اپنی کتاب ’’If I am Assassinated‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے اسد مینگل کے قتل سے لاعلم تھے۔
سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر تھے کہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی یہ حکومت ختم کر دی گئی۔ ان رہنماؤں کے علاوہ ولی خان، سردار خیر بخش مری (مرحومین) سمیت 55نیپ کے لیڈران جیل میں ڈال دئیے گئے۔
آئینی و جمہوری راستے بند ہونے کے سبب بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے مگر جیل میں مقید ان رہنماؤں نے سیاسی جدوجہد ہی پر زور دیا۔ یہ وہ رہنما تھے جنہوں نے 1964میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا اور ملک دو لخت ہونے کے بعد تاریخی تعاون سے 1973کے آئین کو متفقہ بنایا۔
واقعہ یہ ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی میں پاکستان کے جو چوٹی کے ترقی پسند و قوم پرست جمع تھے، انگریز کے تنخواہ دار اور پاکستانی آمروں کے لے پالک چونکہ اُن کا سیاسی مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، اس لیے روایتی تہمت ساز فیکٹری بروئے کار آ جاتی۔
تاریخ کا لطیفہ یہ بھی ہے کہ جنہوں نے آمروں کا ساتھ دیا اور جو ملک کو گداگر بنا گئے، وہ تو محبِ وطن کہلائے اور جو ہر جمہوری و آئینی تحریک میں صف اوّل میں تھے اور جن پر کرپشن کا الزام تک نہیں وہ غدار!!
سردار عطاء اللّٰہ مینگل جیسی تاریخ ساز شخصیت کی وارث جماعت کا وفاق سے اتحاد نیک شگون ہے اور اس امر کا عکاس بھی کہ سابق نیپ سے وابستہ جماعتوں نے کبھی بھی وفاق کے ساتھ چلنے سے پہلو تہی نہیں کی۔
آج کا سوال یہ ہے کہ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ غداری کی جعلی اسناد تقسیم کرنے اور ’’فروعی خوف و مفروضوں‘‘ پر قوت ضائع کرنے کے بجائے اس توانائی کو کشکول توڑنے اور قومی ہم آہنگی، امن، جمہوری و معاشی استحکام کیلئے بروئے کار لایا جائے۔