سینیٹرز کا پولیو پروگرام کے سابق فوکل پرسن بابر بن عطاء کی گرفتاری کا مطالبہ

سینیٹرز نے وزیراعظم عمران خان کے سابق فوکل پرسن برائے انسداد پولیو پروگرام بابر بن عطاء کو گرفتار کرکے تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے پولیو کیسز پر بحث کی گئی۔ 

اس دوران سینیٹر عینی مری نے کہا کہ حکومت نے ایک سوشل میڈیا آفیسر بابر بن عطاء کو پولیو سیل کا فوکل پرسن بنا دیا، وزیر اعظم نے اسے ہٹانے کی درخواست بھی مسترد کی، بابر عطاء پولیو کا وہ وائرس واپس لے آیا جو دنیا سے ختم ہو چکا تھا، وہ جیل میں کیوں نہیں ، اب کہاں ہے؟ 

انہوں نے مزید کہا کہ بابر بن عطاء نے ہمارے بچوں کی جان کو خطرے میں ڈالا، اس پر مقدمہ کیوں نہیں درج کیا گیا؟

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے مطالبہ کیا کہ  بابر بن عطاء کو گرفتار کرکے غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہیے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان کے اضلاع کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ میں پولیو کیسز کے ذمہ دار ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ہیں، کہا جاتا ہے وہ پولیو کا خاتمہ اس لیے نہیں چاہتے کہ کہیں بیرون ملک سے ڈالرز آنا بند نہ ہو جائیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے پر والد کا شناختی کارڈ بلاک ہونا چاہیے اور ایسے افراد کا سرکاری اسپتال میں علاج بھی نہیں ہونا چاہیے۔ 

اس معاملے پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے بحث سمیٹتے ہوئے کہاکہ پولیو کے قطرے پلانے سے بانجھ پن نہیں ہوتا، حکومت سفارش کرتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ بابر بن عطاء کا معاملہ تحقیقات کے لیے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیں، اگر بابر بن عطاء   نے مجرمانہ غفلت کی ہے تو اسے سزا دی جائے۔

خیال رہے کہ بابر بن عطاء کو وزیراعظم عمران خان نے انسداد پولیو پروگرام کا فوکل پرسن بنایا تھا تاہم گزشتہ سال 18 اکتوبر کو اُن سے استعفیٰ لیا گیا تھا۔ 

ذرائع کے مطابق بابربن عطاء نے استعفیٰ دیا نہیں بلکہ اُن سے استعفیٰ لیاگیا، انہوں نے عہدے کا غلط استعمال کیا اور بےضابطگیوں میں ملوث پائے گئے۔

ذرائع نے بتایا کہ بابربن عطاء نے وزیراعظم آفس اور حکومتی عہدےکا ناجائز استمعال کیا، پولیو کیسز سے متعلق غلط اور بے بنیاد رپورٹس جاری کی گئیں، خیبرپختونخوا میں مرضی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز (ڈی ایچ اوز)کی تعیناتی کیلئے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا اور عالمی ڈونرز کے اداروں میں ذاتی فائدے کیلئے لابنگ کی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں پولیو کے کیسز میں گزشتہ برس ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا اور 2019 کے اب تک 144 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں جو گزشتہ چند برسوں کی بلند ترین سطح ہے۔

مزید خبریں :