لنڈا فروش کا اکلوتا بیٹا

فوٹو: فائل

تقریباً ایک سو دس پندرہ سال پہلے یہ مفلوک الحال لٹا پٹا خاندان روس سے آیا اور غریب نواز قسم کے شہر نیویارک میں آباد ہو گیا۔

تب کا نیویارک اب کے کراچی سے ملتا جلتا شہر تھا، خاندان کے سربراہ کو اور کچھ نہ سوجھا تو اس نے سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا کاروبار شروع کر دیا جسے ہمارے ہاں ’لنڈا‘ کہتے ہیں۔

کاروبار کیا تھا، لنڈے کے کپڑوں کی ریڑھی یا چھابہ تھا، غربت کی ایک خاصیت ہے کہ یہ زرخیز بہت ہوتی ہے، محدود ترین آمدنی میں یہ کنبہ 7 بچوں اور 2 میاں بیوی پر مشتمل تھا جب 1916میں 6 بہنوں کے اس اکلوتے بھائی نے جنم لیا اور پھر بہت ہی چھوٹی عمر میں چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگا۔

تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے اس ’اوئے چھوٹے‘ کی چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں پر قسمت کی لکیر کتنی روشن اور زندگی کی لکیر کتنی لمبی ہے۔

یہ وہی آدمی ہے جس نے بعد ازاں 1988میں اپنی آپ بیتی لکھی جو ʼʼTHE RAGMANʼS SON"کے عنوان سے بہت مقبول ہوئی لیکن فی الحال ہم واپس اس کی جدوجہد کی طرف پلٹتے ہیں جب  امریکن اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس سے اسپیشل اسکالر شپ پر گریجویشن کے بعد دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر نیوی جوائن کر لی لیکن 1944میں طبی وجوہات کی بنا پر اسے یہ ملازمت چھوڑنا پڑی جو اس کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔

معاف کیجئے کہ میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اکیڈمی میں تعلیم کے دوران ہی اس نے اپنی ایک کلاس فیلو ڈیانا سے شادی کر لی تھی جس کے نتیجہ میں دو بیٹوں نے جنم لیا جن میں سے ایک آج کا سپر سٹار ہے لیکن بات بیٹے نہیں باپ کی ہو رہی ہے یعنی غریب لنڈا فروش کے اس بیٹے کی جس نے نیوی سے فارغ ہونے کے بعد نیویارک تھیٹر اور ریڈیو پر کام شروع کر دیا۔

پاکستان بننے سے تقریباً ایک سال پہلے اسے "THE STRANGE LOVE OF AMRTHA IVERS" میں کام ملا لیکن لوگوں نے اس فلم کا کوئی نوٹس نہیں لیا لیکن اس کے بعد فلم چیمپئن میں ایک سفاک سنگدل باکسر کا کردار ادا کرنے پر سیکنڈ ہینڈ کپڑے بیچنے والے غریب الدیار روسی باپ کا یہ گمنام بیٹا امریکہ کا سپر اسٹار بن چکا تھا لیکن ابھی اسے دنیا کا سپر سٹار بننا ہے۔

کرک ڈگلس کو آسکر ایوارڈ کی دوسری نامزدگی ایک اور فلم ʼʼTHE BAD AND BEAUTIFUL"کیلئے ملی، 1960میں دی سپارٹکس میں ٹائٹل رول کر کے وہ گلوبل سپر سٹار، ایک لیجنڈ اور میرا فیورٹ ترین اداکار بن چکا تھا۔

میں، جو اس وقت اسکول کی انتہائی ابتدائی کلاسوں میں تھا، پہلی انگریزی فلم تھی جو میں نے اپنے والد محترم و مرحوم کے ساتھ دیکھی اور اس کے بعد زندگی میں کئی بار دیکھی۔

 آج بھی میری لائبریری میں موجود ہے، تراشیدہ چہرہ، رومن ناک، ٹھوڑی میں گڑھا، گہری گھمبیر آنکھیں، باریک ہونٹ جو عموماً بےرحمی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

’سپارٹکس‘ کے بعد ’سن آف سپارٹکس‘ بھی آئی جس کا ہیرو ٹونی کرٹس تھا، بالکل ہی اینٹی تھیئس کیونکہ کرک ڈگلس مردانہ وجاہت کا شہکار تھا تو چیکو اور چکناسا ٹونی کرٹس زنانہ وجاہت کا شہکار تھا لیکن کیونکہ کرک ڈگلس کا فلمی بیٹا تھا اس لئے میں نے اس کی بھی اتنی عزت کی کہ جب پہلی بار ہالی وڈ گیا تو ہال آف فیم فٹ پاتھ پر اس کا نام دیکھ کر اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کیا۔

میری ایک اور فیورٹ فلم وائی کنگز کا ہیرو بھی کرک ڈگلس ہی تھا جو عشروں پہلے ایک بار پاکستان بھی آیا لیکن اتفاقاً میں ملک سے باہر تھا،کرک ڈگلس جتنا بڑا اداکار تھا، اس سے بھی بڑا انسان تھا۔

انتہائی دیالو اور مخیر آدمی جس نے اپنی دوسری صحافی بیوی این کے ساتھ مل کر دی ڈگلس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھ کر بے پناہ فلاحی کام کئے، این بائیڈنز سے اس کے دو بیٹے تھے پیٹر اور اریک، اریک 2004میں فوت ہو گیا۔

مائیکل ڈگلس آج بھی سپر سٹار ہے، اس نے 2012میں اپنی 50ویں سالگرہ پر اپنی کتاب "I AM SPARTACCUS" لانچ کی، 1961میں اسے "THE PRESIDENTIAL MEDAL OF HONOUR" جیسا اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ پیش کیا گیا۔

85میں فرنچ گورنمنٹ نے LEGION OF HONOURپیش کیا، 91میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ، 99میں ’’ٹاپ ففٹی سٹارز آف امریکن سنیما‘‘ میں تسلیم کیا گیا اور 2004میں کیلی فورنیا کی ایک سٹرک کو "KIRK DOUGLAS WAY" کے نام سے نوازا گیا۔

چند روز پہلے 103برس کی عمر میں یہ ستارہ غروب ہو گیا جس کے ساتھ ہی میرے بچپن لڑکپن کا ایک خوب صورت حصہ بھی غروب ہو گیا۔’گور پیا کوئی ہور‘ گزشتہ دو سال چھٹیاں منانے میں بچوں کے ساتھ امریکہ نہیں گیا کہ اب سفر سے اوبھ گیا ہوں۔

آئندہ اِن شاء اللہ جاؤں گا تو صرف اس لئے کہ اپنے ’سپارٹکس‘ کی آخری آرام گاہ پر سلام اور پھول پیش کر سکوں کہ یہ ’سپارٹکس‘ سخاوت میں بھی بےمثال تھا۔

مزید خبریں :