15 فروری ، 2020
سندھ میں قبائلی تنازعات نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں جب کہ ان جھگڑوں سے علاقائی سرداروں کی اجارہ داری بھی مستحکم ہو رہی ہے۔
سندھ میں قبائلی تنازعات سے مختلف علاقوں میں امن وامان برباد اور مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یہی تنازعات سرداری نظام مستحکم بنانے کی ایک اہم وجہ بھی ہیں،12،13 سال کے لڑکے بھی کلاشنکوف اُٹھانے اور مرنے مارنے پر مجبور ہیں۔
سندھ کا ضلع شکار پور بھی ان دِنوں ایسی صورتحال سے دوچار ہے جہاں قبائلی تصادم میں سب سے زیادہ 127 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
صوبائی وزیر برائے معدنی وسائل شبیر بجارانی کے قبیلے کی دشمنی تیغانی قبیلے سے چل رہی ہے جب کہ تیغانی قبیلے کے سردار تیغو خان تیغانی کو سندھ حکومت کے دوسرے وزیر برائے توانائی امتیاز شیخ کا دایاں بازو سمجھاجاتا ہے۔
ان کے علاوہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی ، رکن قومی اسمبلی میر عابد حسین بھیو اور ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کا تعلق بھی شکار پور ہی سے ہے۔
یوں ایرانی تیل کی اسمگلنگ ، بین الصوبائی تیل کی پائپ لائن، منشیات کا کاروبار اور کچے کے علاقے میں اربوں روپے کے وسائل کے سبب ، شکار پور سونے کے انڈے دینے والی مرغی بنا ہوا ہے، جہاں بالادستی کی جنگ لڑنے والوں پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام بھی ہے۔
قبائلی تنازعات میں دریا کے اطراف موجود کچے کی قیمتی زمین بھی ایک اہم وجہ ہے۔
کچے کی اربوں روپے آمدنی والی لاکھوں ایکڑ انتہائی زرخیز زمین، مفت پانی، مچھلی ، دریائی جنگل کی قیمتی لکڑی اور کچے میں پناہ لینے والے مفرور ملزمان کا سستے میں بطور ہاری کام کرنا ہی اصل وجوہات ہیں کہ ہر سردار اس جگہ کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتاہے ۔
سندھ کی تاریخ کا ایک ہولناک قبائلی تنازع جتوئی اور مہر قبائل کے درمیان کچے کی صرف ایک ایکڑ زمین پر شروع ہوا تھا جس میں 300 سے زائد افراد مارے گئے، 15 سال تک چلنے والا تنازع 2007ء میں ڈاکٹر ابراھیم جتوئی اور غوث بخش مہر میں صلح کے نتیجے میں ختم ہوا۔
شکارپور میں جرائم پیشہ افراد کی اس قدر جرات ہوگئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پولیس کو دھمکی آمیز پیغامات بھیجتے ہیں ۔ ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان نے اپنی رپورٹ میں ضلع میں ہونے والے جرائم کی ذمہ داری صوبائی وزیر امتیاز شیخ پر عائد کی ہے۔
سیاسی مخالفین کے علاوہ شکارپور سے حکومت میں شامل شخصیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ امتیاز شیخ کو خود پر عائد الزامات کا جواب دینا چاہیے۔
پولیس نے اغوا اور گاڑیاں چھیننے کا ذمے دار قبائلی جھگڑوں میں مفرور ملزمان کو قرار دیا ہے ان مفرور ملزمان کی تعداد سیکڑوں ہزاروں میں ہے۔
کشمور، شکار پور ، لاڑکانہ ،جیکب آباد اور گھوٹکی میں یہ صورتحال زیادہ سنگین ہے۔
قبائلی تنازعات میں ملوث افراد تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں لیکن یہاں سندھ اسمبلی میں تمام سردار مل کر بیٹھتے ہیں، کئی سردار سندھ حکومت میں وزیر بھی ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت قبائلی قتل وغارت گری روکنے میں ناکام ہے۔
خیال رہے کہ قبائلی تنازعات سے جڑے اور کچے میں پناہ لیے تمام لوگ ڈاکو نہیں، ان میں بہت سے حالات کے ستائے ہوئے بھی ہیں۔ یہ سچے، سادہ، مہمان نواز اور محبت کرنے والے لوگ ہیں، لیکن ان کی یہی سادگی ان کی کمزوری بھی بن گئی ہے۔