17 فروری ، 2020
پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسز (سابقہ ڈی ایم جی / سی ایس پی) کا دہائیوں پرانا غلبہ ختم کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اس با اثر گروپ کی 40؍ فیصد (600؍ کی تعداد) اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اسامیاں صوبائی سروسز اور تکنیکی ماہرین کو وفاقی سطح پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک سینئر سرکاری ماہر نے دی نیوز کو بتایا کہ سول سروس میں کی جانے والی تازہ ترین اصلاحات کی منظوری وزیراعظم اور کابینہ نے دی ہے، ان کے نتیجے میں سول سروسز میں عہدہ محفوظ رکھنے یا کسی حق کے تحت ملنے (Reservation & Entitlement) کی بجائے کارکردگی اور اہلیت کی بنیاد پر سب کیلئے کھل جائیں گی۔
کہا جاتا ہے کہ وفاقی سطح پر پی اے ایس گروپ سے 200؍ جبکہ صوبائی حصے میں سے 400؍ اسامیاں کیڈر سے خارج کی گئی ہیں۔ منظور کردہ اصلاحات کے مطابق، پی اے ایس کیڈر میں اسامیاں 1900؍ ہیں جن میں 600؍ کی کمی کرکے انہیں 1300؍ کی سطح پر لایا جائے گا۔ صوبائی سطح پر یہ اسامیاں (جو پی اے ایس سے کم کی گئی ہیں) پر صوبے اپنے صوبائی سول سروس افسران سے پُر کریں گے۔
وفاقی سطح پر وفاقی سیکریٹریٹ میں منتخب وزارتوں کی 200؍ پی اے ایس اسامیاں مسابقتی عمل کے تحت تکنیکی ماہرین سے پُر کی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیوروکریسی میں ا علیٰ سطح پر سول سروس میں تکنیکی ماہرین اور اسپیشلسٹ کی ترقی کے امکانات مناسب ہوں گے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ہر فن مولا (جنرلسٹ) کو پالنے کی بجائے اسپیشلائزیشن کا کلچر فروغ پائے گا۔
اتوار کے دی نیوز میں ان اصلاحات کے متعلق خبر شائع ہو چکی ہے۔ ان کے نتیجے میں بیوروکریسی سے پرانا گند صاف کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ نئی اصلاحات کے نتیجے میں حکومت کارکردگی نہ دکھانے والے اور غیر موثر سرکاری ملازمین کو قبل از وقت یعنی صرف 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائر کر سکے گی۔
منظور کردہ دستاویز میں لکھا ہے کہ 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائرمنٹ کے آپشن پر حکومت نے کبھی عمل نہیں کیا، نتیجتاً سب کو 60؍ سال تک ملازمت کی یقین دہانی رہتی تھی اور باصلاحیت اور مسابقتی عمل کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی، 20؍ سال کی سروس کے بعد باقاعدگی کے ساتھ نظرثانی کا عمل ہوگا اور حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائر کرنے کا آپشن موجود ہوگا۔
دستاویز میں لکھا ہے کہ یہ کام پہلی مرتبہ کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں صلاحیت میں اضافے اور مقابلے کا ماحول پیدا ہوگا اور نا اہل افسر کا صفایا ہو جائے گا۔ منظور شدہ اصلاحات میں مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن میں ایولیوشن، پروموشن، تربیتی پہلو وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں روٹیشن پالیسی پر عمل کی بات بھی کی گئی ہے جس پر من و عن عمل کیا جائے گا، توقع ہے کہ پی اے ایس اور پی ایس پی (پولیس سروس آف پاکستان) گروپ کے افسران اس کی مزاحمت کریں گے۔
اصلاحاتی دستاویز میں لکھا ہے کہ اس بات کا رجحان پایا جاتا ہے کہ پی ایس پی اور پی اے ایس گروپ کے افسران طویل عرصہ تک ایک ہی صوبے سے چپک جاتے ہیں، اور عملاً صوبائی سروس بن جاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تجربے کی ورائٹی ختم ہو جاتی ہے اور غیر جانبداریت کا نقصان ہوتا ہے۔ اس سے آل پاکستان سروسز کے خیال کو بھی نقصان ہوتا ہے۔
لہٰذا، نئی روٹیشن پالیسی متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت پی اے ایس اور پی ایس پی افسران کی پہلی ایلوکیشن ان کے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر کی جائے گی، گریڈ 17؍ اور 18؍ کے مرد افسران کیلئے اپنے صوبے سے باہر پانچ جبکہ خواتین کیلئے تین سال کی لازمی شرط ہوگی۔
20؍ گریڈ میں ترقی کیلئے ضروری ہوگا کہ کم از کم دو سال سخت علاقوں میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ یہ شرط خواتین پر لاگو نہیں ہوگی۔ فی الوقت بلوچستان اور گلگت بلتستان کو سخت علاقے سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی پی اے ایس اور پی ایس پی افسر کو اسلام آباد یا ایک ہی صوبے میں 10؍ سال تک خدمات انجام دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
گریڈ 21؍ میں ترقی کیلئے شرط یہ ہوگی کہ 10؍ سال کی تکمیل پر دیگر صوبوں یا اسلام آباد ٹرانسفر کی جائے گی۔ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ بیوروکریسی میں ضابطے کی کارروائی اور احتساب کا عمل غیر موثر ہے، حکومت نے کارکردگی اور ضابطے کیلئے بھی نئے قواعد و ضوابط کی منظوری دی ہے جن کے تحت مجاز افسران کا Tier ختم کر دیا گیا ہے اور اب انکوائری افسر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی انکوائری 60؍ روز میں مکمل کرے۔
مجاز اتھارٹی کیس کا فیصلہ 30؍ دن میں کرے گی۔ ان اصلاحات میں نئے جرمانے بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں جرمانہ، سابقہ سروسز کی ضبطی اور خرد برد کردہ رقم کی ریکوری شامل ہیں۔