19 فروری ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کے والدین کو اعتماد میں لینے کے لیے بلایا تو والدین نے اپنے بچوں کو واپس نہ لانے پر شدید احتجاج کیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ میں چین میں پھنسے طلبہ اور شہریوں کو واپس لانے کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے والدین کی وزیراعظم کے معاونین خصوصی سے ملاقات کرانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ حکومت کوئی ایسا کوئی میکنزم بنائے کہ بچوں کے والدین حکومتی نمائندوں سے براہ راست رابطہ کر سکیں۔
عدالتی حکم پر حکومت کی جانب سے بچوں کے والدین کو اعتماد میں لینے کے لیےاسلام آباد بلا یا گیا تھا جہاں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری موجود تھے۔
اس موقع پر والدین کے احتجاج پر ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ بچوں کو واپس لانے کے نقصانات زیادہ فوائد کم ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں حکومت چاہے تو بچے واپس نہیں آسکتے؟
معاون خصوصی کی اِس بات پر والدین سراپا احتجاج بن گئے اور ان کا کہنا تھا کہ پھر حکومت بچوں کو واپس کیوں نہیں لارہی؟
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر تو مسیحا ہوتے ہیں مگر ظفر مرزا صاحب، آپ ہمارے بچوں کے دشمن ہیں‘۔
والدین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ چینی صوبے سے پاکستانی طلبہ کو کیوں نہیں نکالا جارہا؟ کیا حکومت اتنی نالائق ہے کہ اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتی؟
پاکستانی طلبہ کے والدین کا غصہ اتنا بڑھ گیا کہ وزیر اعظم کے معاونین خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا اور زلفی بخاری کو تقریب چھوڑ کے جانا پڑا، جاتے جاتے وہ یہ بھی کہہ گئے کہ والدین کے تاثرات کابینہ تک پہنچائیں گے۔
اس کے بعد والدین نے باہر نکل کر سڑک بلاک کر کے احتجاج شروع کر دیا جس کے بعد ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ والدین سے مذاکرات کے لیے آئے مگر انہیں ناکام لوٹنا پڑا۔
بعد ازاں والدین نے 21 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی سماعت تک احتجاج مؤخر کر دیا ، ان کا کہنا تھا کہ 3 دن میں بچوں کی واپسی شروع نہ ہوئی تو پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کریں گے۔