21 فروری ، 2020
اسلام آباد: عمران خان حکومت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے- خراب معاشی حالات کی وجہ سے خزانے میں پیسے نہیں ہیں لیکن سرکاری ملازمین کو بڑھتی مہنگائی اور کساد بازاری کے باعث اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ رقم درکار ہے۔
سرکاری ملازمین اور سرکاری عہدیداروں کی تنخواہیں بڑھانے کے معاملے میں حکومت مختلف اطراف سے شدید دباؤ کا شکار ہے لیکن حکومت کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
اس کی بجائے، حکومت صرف ایف آئی اے ملازمین کی تنخواہوں میں 150؍ فیصد کرکے امتیازی تنخواہوں کے ڈھانچے کو مزید پیچیدہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
اس سے پہلے، پی ٹی آئی کی حکومت نے نیب کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی تھیں، ایف آئی اے والوں نے اسے مثال قرار دیتے ہوئے اپنے لیے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وفاقی حکومت کے تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں 20؍ فیصد خصوصی الاؤنس دیا جائے اور ساتھ ہی یہ نشاندہی بھی کی تھی کہ وفاقی حکومت اپنے ملازمین کیخلاف امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتی۔
تاہم، یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ سپریم کورٹ اور ساتھ ہی ہائی کورٹس نے اپنے کئی سال قبل اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 300؍ فیصد تک اضافہ کیا تھا۔ عدلیہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں اس اضافے کو مختلف معاملات میں مثال کے طور پر پیش کیا گیا جس میں منتخب گروپس کو ان کی تنخواہوں میں خصوصی اضافے کی منظوری دی گئی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتیازی صورتحال میں اضافہ ہوگیا۔
جس وقت حکومت نے ایف آئی اے ملازمین کی تنخواہوں میں 150؍ فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے، وزارت قانون نے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 300؍ فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیکریٹریز کمیٹی نے بھی وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کیلئے تنخواہوں میں نہ صرف 100؍ فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ ہر وفاقی سیکریٹری کو تنخواہ میں ماہانہ چار لاکھ روپے کا اسپیشل الاؤنس بھی مانگ لیا ہے۔ اپنے علیحدہ مطالبے میں وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین نے تنخواہوں میں 120؍ فیصد مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ 2؍ مارچ سے قلم چھوڑ ہڑتال کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قطع نظر گریڈ کے، وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں کا ڈھانچہ مایوس کن ہے۔ وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کو 20؍ فیصد سیکریٹریٹ الاؤنس ملتا ہے جس کے باعث وہ ایسے ملازمین کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہیں جو منسلک محکموں وغیرہ میں کام کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے رواں ماہ کے اوائل میں اسی سیکریٹریٹ الاؤنس کو امتیازی قرار دیا تھا لہٰذا وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کو یہ 20؍ فیصد دیا جائے۔
وزارت خزانہ کے ذریعے کے مطابق، حکومت کو اب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موصول نہیں ہوا لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیلئے اضافی 150؍ ارب روپے درکار ہوں گے۔
کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے نشاندہی کی تھی کہ وفاقی حکومت اپنے ملازمین کیخلاف امتیازی سلوک نہیں کر سکتی، عدالت نے قرار دیا کہ وفاقی حکومت کے تمام سرکاری ملازمین کو اسپیشل الاؤنس ملے گا۔
اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مارچ 2013ء میں وزارتوں اور پاکستان سیکریٹریٹ کی ڈویژنوں کے ملازمین کیلئے 20؍ فیصد اسپیشل الاؤنس کی منظوری دی تھی لیکن یہ الاؤنس منسلک محکموں کے ملازمین کو نہیں دیا گیا تھا۔
اس امتیازی سلوک کو ختم کرنے کیلئے، دیگر محکموں کے ملازمین، بشمول وفاقی حکومت کے کالجز کی ٹیچرز ایسوسی ایشن، پاکستان پی ڈبلیو ڈی، کمیونیکیشن سیکورٹی کے محکموں، سی ڈی اے یونین اور پاکستان کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اپریل 2013ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور چیلنج کیا تھا کہ یہ الاؤنس انہیں بھی دیا جائے۔
اگرچہ سپریم کورٹ تنخواہوں میں امتیازی سلوک کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن سیکریٹریز کمیٹی نے حال ہی میں وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کیلئے تنخواہوں میں 100؍ فیصد اضافے کی تجویز دی تھی اور حکمرانوں کو آگاہ تک نہیں کیا تھا کہ تجویز منظور ہونے کی صورت میں تنخواہوں کا مساوی نظام (یونیفائیڈ پے اسکیل سسٹم) مزید بگڑ جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی سیکریٹریز کمیٹی نے حکومت کو تجویز کیا؛ اس کے نتیجے میں ایک اور مثال قائم ہو جائے گی جبکہ چالاکی کے ساتھ پیدا کی گئیں سابقہ مثالیں پہلے ہی موجود بھی ہیں اور ان پر ایک کے بعد ایک کرکے عمل بھی کیا گیا ہے تاکہ ملک کی سول سروسز میں انتہائی با اثر گروپس کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ہی، اگر حکومت نے سیکریٹریز کمیٹی کے فیصلے کی منظور اور اس پر عمل کیا تو اس کے نتیجے میں سیکریٹریز کا اپنا ہی فائدہ زیادہ ہوگا۔
کمیٹی کی سفارشات کے مطابق، بنیادی تنخواہ کے 100؍ فیصد کے مساوی وفاقی سیکریٹریٹ کے گریڈ ایک سے 22؍ کے تمام ملازمین کو سیکریٹریٹ الاؤنس دیا جائے اور ساتھ ہی وزارتوں اور ڈویژن کے انچارج ایڈیشنل سیکریٹریز اور وفاقی سیکریٹریٹ کو ’’مناسب‘‘ ایگزیکٹو الاؤنس دیا جائے جو کہ کمیٹی کے اجلاس کے اہم نکات میں چار لاکھ روپے ماہانہ بتایا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین کے خصوصی گروپس کو تنخواہوں میں وقتاً فوقتاً ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے دیے جانے والے خصوصی اضافے کی وجہ سے تنخواہوں کا مساوی ڈھانچہ اور نظام مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔ یہ نظام انتظامی اصلاحات کے تحت 1973ء میں سول بیوروکریسی کیلئے متعارف کرایا گیا تھا۔
قانون سازی کو نظر انداز کرتے ہوئے، ایگزیکٹو کی جانب سے متعدد مرتبہ کی جانے والی مداخلت کی وجہ سے ایسی مثالوں کے پہاڑ کھڑے ہوگئے ہیں۔
2018ء میں سب سے پہلے یہ خیبر پختونخوا کی حکومت تھی جس نے صوبے میں کام کرنے والے صرف پی اے ایس (سابقہ ڈی ایم جی گروپ) اور پی ایم ایس (سابقہ پی سی ایس) گروپ والوں کو تنخواہوں میں ’’ایگزیکٹو الاؤنس‘‘ کی مد میں 150؍ فیصد اضافے کی منظوری دی تھی۔
گزشتہ سال کے وسط (جولائی 2019ء) میں بزدار حکومت نے خیبر پختونخوا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی سے مشورہ کیے بغیر صوبائی بیوروکریسی کے اشرافیہ طبقے کی جاری بنیادی تنخواہوں میں 150؍ فیصد اضافے کی منظوری دی۔
ایگزیکٹو الاؤنس کی مد میں کیا جانے والا یہ انتہائی امتیازی اضافہ صوبے کے صرف 1700؍ منتخب افسران کیلئے تھا۔ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق سابق ڈی جی ایم گروپ (جسے اب پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کہا جاتا ہے) اور سابقہ پی سی ایس (جسے اب صوبائی مینجمنٹ سروس کہا جاتا ہے) سے تھا۔
اس زبردست اضافے کی منظوری صوبائی کابینہ نے دی اور پنجاب اسمبلی کی جانب سے صوبائی بجٹ منظور کیے جانے کے چند ہفتوں بعد ہی یعنی 29؍ جولائی کو اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
’’ایگزیکٹو الاؤنس‘‘ کے اہل قرار دیے گئے عہدوں میں صوبے کے تقریباً تمام صوبائی سیکریٹریز، ایڈیشنل چیف سیکریٹریز، بورڈ آف ریونیو کے ممبران، ایڈیشنل سیکریٹریز، ڈپٹی سیکریٹریز، سیکشن افسران، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، ریونیو افسران، اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹس شامل تھے۔ تاہم، ان محکموں کے 17؍ گریڈ سے کم ملازمین میں سے کسی کو بھی یہ اضافہ نہیں دیا گیا۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب سے قبل، سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ایف بی آر، نیب وغیرہ نے اپنے ملازمین کو دیگر کے مقابلے میں بھاری تنخواہیں دینے کی منظوری دی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ سول بیوروکریسی کے منتخب اور با اثر طبقے کیلئے اس طرح کے بھاری اضافے کے نتیجے میں سرکاری ملازمین کی غالب بڑی تعداد نظر انداز ہو جائے گی۔