بلاگ
Time 24 فروری ، 2020

پھر وہی پرانی غلطیاں

فوٹو: فائل

یہ حکمران بھی بڑے کمال کے لوگ ہوتے ہیں، بار بار پرانی غلطیاں ہی کیے جاتے ہیں، نئی غلطیوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے، دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں اور پھر خود ہی اس میں گر کر جمہوریت کو خطرات سے دوچار کر دیتے ہیں، انور منصور خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

وہ پچھلے 9 ماہ سے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نااہل قرار دلوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس دوران لندن کے کئی چکر بھی لگا چکے تھے لیکن اچانک ٹھوکر کھا کر اس گڑھے میں خود گر گئے جو انہوں نے وزیر قانون فروغ نسیم کے ساتھ مل کر جج صاحب کیلئے کھودا تھا۔

پچھلے سال مئی میں حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس فائل کیا تو انور منصور خان کے کافی تحفظات تھے لیکن اٹارنی جنرل کی حیثیت سے انہیں حکومت کا مقدمہ تو ہر حال میں لڑنا تھا۔

مقدمہ بہت کمزور تھا، حکومت نے وکلا کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کردار کشی کی ایک مہم چلائی گئی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود جج صاحب کے خلاف مالی بدعنوانی یا منی لانڈرنگ کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہ لایا جا سکا۔

ریفرنس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام بیرونِ ملک موجود جائیداد اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیوں نہیں کی، یہ ریفرنس دائر کرنے کی وجہ 2017ء میں فیض آباد دھرنا کیس میں ان کا لکھا ہوا فیصلہ تھا جس پر تحریک انصاف، ایم کیو ایم، شیخ رشید احمد اور کچھ اداروں کو شدید اعتراضات تھے۔

جن دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ریفرنس دائر کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس ناچیز نے کچھ صاحبانِ اختیار کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے گئے فیصلے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا جائے کیونکہ ماضی میں ان سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی ناراض تھی۔

اب اگر تحریک انصاف بھی ناراضی کا اظہار کرے گی تو ایسا لگے گا ہم بدستور پرانے پاکستان میں رہتے ہیں، یہ نیا پاکستان نہیں ہے، مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر دھکیلا جا رہا ہے اور ماضی کی حکومتوں کی پرانی غلطیوں کو بڑے بےہنگم طریقے سے دہرایا جا رہا ہے۔

صاحبانِ اختیار کی ناراضی مول لیتے ہوئے اس ناچیز نے 15اپریل 2019ء کو ’’شہداء کے ساتھ غداری‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں حکمرانوں کو آگاہ کیا کہ آج آپ فیض آباد دھرنا کیس میں جس جج کے فیصلے سے ناراض ہیں 2016ء میں اسی جج نے کوئٹہ بم دھماکے کی انکوائری رپورٹ میں اس وقت کی حکومت کی غلطیوں اور غفلت کی نشاندہی کی تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سیخ پا ہو گئے تھے اور انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ کے خلاف ناصرف پریس کانفرنس کی بلکہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا حالانکہ معزز جج صاحب نے اس رپورٹ کے ذریعہ کوئٹہ بم دھماکے میں شہید ہونے والے 70وکلا اور ان کے اہلخانہ کو انصاف دلانے کی کوشش کی تھی۔

میں نے اپنے کالم کا اختتام ان الفاظ پر کیا ’میں دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے ورثا کی طرف سے حکومت کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کو متنازع بنانے کے بجائے ان کے لکھے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کریں اور ان شہدا کے ساتھ غداری نہ کریں جن کو قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف دینے کی کوشش کی‘۔

اس کالم پر مجھے کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست مسترد کرکے ایک متنازع فیصلہ دیا، جب میں نے پوچھا کہ نیب کی درخواست مسترد کرنے والے تین رکنی بنچ میں دو اور جج صاحبان بھی تھے، آپ ان پر الزام کیوں نہیں لگاتے تو کوئی جواب نہ تھا۔

سچ یہ تھا کہ 2012ء میں قاضی فائز عیسیٰ نے میموگیٹ کمیشن کی رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوروار لکھا تو پیپلز پارٹی نے انہیں سازش کا مرتکب قرار دیا، 2016ء میں کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں وزیر داخلہ کی کالعدم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتوں کا ذکر آیا تو مسلم لیگ (ن) کو اچھا نہیں لگا اور پھر جب فیض آباد دھرنا کیس میں انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر 12مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کرنے والوں کو سزا ملتی تو فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کو تشدد کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔

انہوں نے 2014ء میں تحریک انصاف کے دھرنے کا بھی ذکر کیا اور بعض اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کی تلقین کی تھی، 18اپریل 2019ء کو میں نے اندھیری رات کے عنوان سے اپنے کالم میں دوبارہ عرض کیا کہ تحریک انصاف کو ادارہ انصاف کے ساتھ لڑائی زیب نہیں دیتی جو آپ کو اس لڑائی میں دھکیل رہا ہے وہ آپ کا دوست ہے نہ اپنا دوست ہے، چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات کی طرف مت بڑھیے۔

اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھیے اور سوچیے کہ وزیراعظم کو عدلیہ سے لڑائی نہ کرنے کا بار بار مشورہ دینے میں میرا کیا مفاد تھا؟ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے عمران خان کی غلطیاں دراصل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی غلطیوں کا ایکشن ری پلے نظر آرہی تھیں۔

ریاض حنیف راہی نے 2016ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نااہل قرار دلوانے کیلئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس کو رجسٹرار نے تکنیکی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ 2018ءمیں جسٹس ثاقب نثار نے اس درخواست پر سماعت شروع کر دی جس میں علی ظفر بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فریق بن گئے۔

مجھے اس درخواست پر ہونے والی سماعتوں کو غو ر سے سننے کا موقع ملا اور آخر میں یہ درخواست مسترد ہو گئی، مئی 2019ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف باقاعدہ ریفرنس دائر کر دیا گیا جسے بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

گزشتہ ہفتے ان کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ ان کے جن اہلخانہ کی جائیدادوں پر اعتراض کیا گیا، وہ اہلخانہ جج صاحب کے زیر کفالت نہیں لیکن ان کی جاسوسی کیلئے برطانیہ میں ایک پرائیویٹ ادارے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بعدازاں انور منصور خان نے عدالت میں کچھ ایسی باتیں کیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ دیگر ججوں کی بھی جاسوسی کرائی جا رہی ہے۔

اس معاملے پر انور منصور خان کو استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے استعفیٰ کسی کے کہنے پر نہیں، اپنی مرضی سے دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے وزیر قانون کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

حکومت کو یہ معاملہ ختم کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا، یہ معاملہ جج صاحب کے اہلخانہ اور ایف بی آر کے درمیان طے ہو سکتا ہے۔

اگر حکومت جج صاحب پر اپنے الزامات ثابت نہ کر سکی تو پھر وزیر قانون اور وزیراعظم پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی چل سکتا ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا۔ خدارا! پرانی غلطیاں مت دہرائیے اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیجئے۔

کل کو فروغ نسیم کسی نئے نیلسن منڈیلا کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور آپ انہیں برا بھلا کہنے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔