25 فروری ، 2020
کورونا وائرس جس کا اب نام COVID-19 رکھ دیا گیا ہے، 30ممالک تک پھیل چکا ہے، دنیا کے ایک کونے آسٹریلیا سے لے کر دنیا کے دوسرے کونے امریکا تک۔ جنوبی کوریا میں 830لوگ اِس کی زد میں ہیں اور دنیا بھر میں 79ہزار لوگوں کو یہ وائرس اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں یہ لگ رہا تھا کہ چین نے اِس پر قابو پا لیا ہے اور اِس وائرس کے کیسز دنیا میں کم ہوتے جا رہے ہیں، اِس وائرس سے جو نئے لوگ متاثر ہو رہے تھے، ان کی تعداد بھی کم ہوئی تھی اور اِس وائرس سے ہلاکتیں بھی کم ہو رہی تھیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک بالخصوص چین نے جو بےمثال اقدامات کیے، ان کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا رہا تھا۔ بحری جہازوں سے لوگوں کو اترنے نہیں دیا جا رہا تھا، 14دن تک لوگوں کو آئسولیشن میں رکھا جا رہا تھا اور بہت سے مشکل لیکن درست فیصلے کرنا پڑے جس کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ اس وائرس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک خدشہ ہمیشہ سے موجود تھا اور اب بھی موجود ہے کہ جب یہ وائرس ایسے ممالک میں پہنچے گا، جن کا نظامِ صحت کمزور ہے تو پِھر اِس کو روکنا شاید کافی مشکل ہو جائے گا۔ اب ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں یہ وائرس دیگر کئی ممالک کے علاوہ ایران اور اٹلی میں بہت تیزی سے پھیل گیا ہے۔ یہ کالم لکھتے وقت ایران میں اس وائرس کے 43کیسز کنفرم ہو چکے ہیں جن میں سے 8لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اٹلی میں دو دن کے اندر وائرس کے کیسز 3سے 132ہو گئے ہیں۔
سب سے پریشان کُن بات اِس وقت یہ ہے کہ افغانستان میں بھی کورونا وائرس کا کیس کنفرم ہو گیا ہے۔ بھارت میں بھی کم از کم تین کیسز کنفرم ہیں۔ جہاں چین میں وائرس کے کیسز میں بہتری آئی ہے وہیں پر دیگر ممالک کے لیے شاید اتنی پابندیاں عائد کرنا یا سخت انتظامات کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگ رہا ہے جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا اب آسان نہیں ہوگا۔
حکومتی اہلکاروں اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (جہاں پر اِس وائرس کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں) کے مطابق پاکستان میں ابھی تک اِس وائرس کا کوئی کنفرم کیس نہیں ہے مگر اب پاکستان کے تمام پڑوسی ممالک، ایران، افغانستان، بھارت اور چین میں یہ وائرس موجود ہے۔ اگر سخت اور فوری انتظامات نہ کیے گئے تو یہ وائرس یہاں پر پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کے مشکل فیصلوں کی مجھ سمیت ہیلتھ سیکٹر سے وابستہ بیشتر لوگوں نے حمایت کی ہے۔
اگر مزید فیصلے بھی کرنا پڑیں تو حکومت کے ساتھ اِس ایشو پر سب کا کھڑے رہنا بہت ضروری ہے۔ چین کی جانب سے سخت پابندیوں کی پاسداری کا ہی یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جہاں چند دن پہلے پورے چین میں لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے تھے، اب نئے کیسز صرف چین کے ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اِس کے لیے چین کی معیشت نے، لوگوں نے اور حکومت نے، سب نے بڑی قربانی دی ہے۔ اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے اور اپنے تمام تر وسائل وائرس کی روک تھام کے لیے استعمال کیے ہیں۔
ہمارے جیسے دیگر ممالک اور ہمارے باقی پڑوسی ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ وائرس ملک میں آتا ہے تو اتنا ڈسپلن موجود نہیں ہے۔ یورپ میں بھی‘ اطالوی حکام کو لوگوں کو کنٹرول کرنے میں دقت پیش آرہی ہے، تو ہمارے ہاں تو اسپتالوں سے بھاگ جانا، اصولوں کی خلاف ورزی کرنا عام بات ہے اور پہلے کالموں میں جس طرح بات ہوتی رہی کہ ہمارا نظامِ صحت بھی کمزور ہے۔ ایسے وائرس کو روکنے میں سب سے بڑا کردار مریض کا اپنا ہوتا ہے کہ وہ فوراً طبی امداد حاصل کرے، اپنے آپ کو آئسولیشن میں رکھے اور دوسرے افراد کو وائرس منتقل کرنے کا سبب نہ بنے، لیکن یہ بھی ہمارے جیسے ممالک میں آسان نہیں ہے۔
اِس وائرس کا اثر دنیا بھر کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ کئی ممالک براہِ راست اور کئی بالواسطہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ چین میں وائرس آیا تو عرب ممالک کو معاشی سرگرمیاں کم ہونے کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں نیچے آنے سے نقصان ہوا۔ اگر پاکستان میں یہ وائرس پھیلتا ہے تو ہماری ایکسپورٹس، کاشتکاری سمیت ملک کے اندر بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہ ایک خوفناک منظر ہے! اِس سب سے اگر ہم کوئی چیز سیکھتے ہیں تو وہ یہ کہ نظامِ صحت بھی سیکورٹی کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں مختلف قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سیکورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں، وہاں اِس پر بھی غور کرنا بہت ضروری ہے۔
گزشتہ 20برس میں یہ وائرس کا چوتھا لیکن سب سے بڑا آؤٹ بریک ہے جس نے دنیا بھر کو متاثر کیا ہے۔ ڈینگی اور پولیو کو تو ہم اِس وقت ویسے ہی بھگت رہے ہیں، کل کو اگر شر پسند عناصر اِس وائرس کو یا کسی اور بیماری کو پاکستان لے آئے اور ہمارا کمزور نظامِ صحت اس کو ابتدائی طور پر نہ روک سکا تو عوام اور ملک کے لیے بہت بری صورتحال بن سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت نے ابھی تک بھرپور کوشش کرکے مختصر مدت میں اِس وائرس کو پاکستان آنے سے روک رکھا ہے اور تاحال پاکستان میں کوئی کنفرم کیس نہیں ہے، لیکن لانگ ٹرم انویسٹمنٹ کی سخت ضرورت ہے کہ اِس ابھرتے ہوئے مسئلے جو ہر چند سال بعد امڈ پڑتا ہے، سے نمٹنے کے لیے ہم اپنے نظامِ صحت کو مضبوط کرنے کو ایک قومی ضرورت بنائیں اور اپنے لوگوں اور ملک کے لیے ہیلتھ سیکیورٹی یقینی بنائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔