28 فروری ، 2020
صدر ٹرمپ اپنا بھارتی دورہ مکمل کرکے واپس چلے گئے ہیں۔ عام تصور چاہے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے حوالے سے کچھ بھی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے اپنے اس دورے کے ذریعے جنوبی ایشیا کے دونوں اہم ممالک کو خوش کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دونوں ممالک سے معاملات کو اسی طرح طے رکھنے میں کامیاب ہو گئے کہ جس انتخابی نعرے پر وہ اقتدار میں آئے تھے اور اگلی مدت کے لیے دوبارہ وائٹ ہاؤس کے مکین بننا چاہتے ہیں۔
اپنے گزشتہ کالم میں اس کا ذکر کیا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے صدر ٹرمپ کو تجویز کیا ہے کہ وہ سی پیک اور بی آر آئی کے حوالے سے کوئی گفتگو نہ کریں۔ بھارت اس حوالے سے سر توڑ کوشش کر رہا تھا مگر انہوں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشورہ کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کی سر زمین پر کھڑے ہو کر ایسی کوئی بات کہنے سے اجتناب کیا کہ جس سے ان کے تعلقات چین کے حوالے سے کسی بدمزگی کا شکار ہو جاتے۔
بھارت میں کھڑے ہو کر ایسی گفتگو کا یہ بھی مطلب اخذ کیا جا سکتا تھا کہ امریکہ بھارت کو چین کے مقابل قوت کے طور پر دیکھ رہا ہے مگر ایسا تصور اس وقت امریکہ کے اپنے مفاد میں بھی نہیں تھا سو شاندار جلسے کے انعقاد کے باوجود اس حوالے سے مودی کو ٹھینگا دکھا دیا ، امریکہ بھارت سے کسی بڑے تجارتی معاہدے کے موڈ میں نہیں ہے اسی لیے انہوں نے اب 24ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ اور یہ ٹرمپ کی وہ پالیسی ہے جس پر وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
جلسے میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا اس طرح سے ذکر کرنا اس بات کا واضح طور پر غماز تھا کہ امریکہ بھارت کو یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ ہم نے ابھی تک خطے میں اپنے انڈے صرف ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھے ہوئے اور اگر معاملات ہماری پسند کے مطابق نہ چلے تو مزید کچھ انڈوں کی ٹوکریوں میں ردو بدل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے انہوں نے اپنی تقریر اور پھر امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ میں بہت معنی خیز گفتگو کی کشمیر پر ثالثی کی بات کر کہ انہوں نے انڈیا میں کھڑے ہو کر پاکستان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم مسئلہ پر امریکی طاقت کا اظہار کیا۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ جس طرح سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کی کامیابی ہے کیونکہ ان کو ثالث تسلیم کرنے کے بعد وہی کچھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو فیصلہ کر دیں۔
کیا ہم اس انداز میں مسئلہ کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت چاہتے ہیں؟ خیال رہے کہ جب ہم آزادی کے ابتدائی برسوں میں پانی کے مسئلے سے نبردآزما تھے تو اس وقت بھی ایک ثالثی کے ذریعے ہی وطن عزیز کے دریا بیچ ڈالے گئے تھے اور وہ ثالثی آج تک ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے،اس لیے صرف اس بیان پر خوش ہونے سے زیادہ فکر مندی اور بہترین تیاریوں کی ضرورت ہے۔
اس بیان کے ساتھ ساتھ امریکہ اور بھارت کا مشترکہ اعلامیہ ایک ایسی کڑوی حقیقت ہے کہ جس پر غور ویسے نہیں کیا جا رہا کہ جیسے کرنا چاہئے۔ امریکہ نے اس اعلامیہ میں بھارت کو خوش اور پاکستان کو دبائو میں لانے کے تمام پینترے استعمال کیے ہیں۔ ایک طرف امریکہ افغان طالبان سے امن معاہدہ کرنے کی طرف جا رہا ہے مگر دوسری طرف وہ افغانستان میں بھارت کے کردار کا خیر مقدم کر رہا ہے، پاکستان برسوں سے اسکو بھگت رہا ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ بھارت میں ہونے والے دو واقعات کے حوالے سے بھی مطالبات شامل ہیں۔امریکہ پاکستان کو خوف میں رکھنے اور بھارت کو خوش کرنے کی عرض سے ایسا تاثر قائم رکھنا چاہتا ہے۔یہ جو ایف اے ٹی ایف میں گرے وائٹ لسٹ کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے وہ بھی در حقیقت اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے امریکہ کی حمایت کی توثیق کی کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت ملنی چاہئے۔ اسی طرح امریکہ نے بھارت کی اس معاملے پر بھی حمایت کا کہا ہے کہ وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی شمولیت کا حامی ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ان حالات میں پاکستان کو اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں اچھی ذاتی دوستی کے نشے میں ایسا نہ ہو جائے کہ بعد میں ہاتھ ملنے کی بھی گنجائش باقی نہ بچے کہ جیسے سندھ طاس معاہدے میں نہ بچی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔