ایک افغان مہربان کا فون

ایک افغان مہربان کا فون—فوٹو فائل

کئی ماہ کی خاموشی کے بعد آج اُس مہربان کا امریکا سے فون آیا اور اُس نے چھوٹتے ہی امریکا طالبان معاہدے پر مجھے مبارکباد دی۔ تمام تر اندیشوں کے باوجود وہ بظاہر بہت خوش تھا کہ 18، 19 برس بعد کابل میں امن و آشتی کے پھول کھلیں گے اور بارود کی بدبو کے بجائے امن اور سکون کی خوشبو پھیلے گی۔

میں عالمی سیاست اور افغانستان کا ماہر نہیں۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر کچھ انٹ شنٹ باتیں لکھنے کا ارادہ ہے۔ میری اُس افغان دوست سے ملاقات کوئی پانچ برس قبل ہوئی تھی، میں امریکا میں تھا تو ایک پرانے شناسا نے اپنے گھر کافی پر بلایا۔

چند مہمانوں میں ایک افغان بھی تھا، جس کا تعلق افغانستان میں درس و تدریس سے رہا تھا اور اُسے ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے افغانستان میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ گوروں کی اس محفل میں ہم صرف دو ہی ’’براؤن‘‘ تھے جو چند لمحوں میں تکلفات کی حدود عبور کرکے دوستی کے رشتے میں ’’داخل‘‘ ہو گئے۔

اُس طرح کی ’’غیر محفل‘‘ میں صرف مسلمان اور ہمسایہ اور پھر اردو جیسی مشترکہ اقدار کے ساتھ دوستی کی منزل طے کرنا چند لمحوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اُسکی خواہش کے مطابق میں اُس کا نام نہیں لکھ رہا، بہرحال اُس نے مجھے بتایا کہ میں افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف کئی سال تک برسر پیکار رہا۔ جوانی، جوش اور جذبۂ جہاد نے مجھے ’’شعلہ جوالا‘‘ بنائے رکھا۔ پھر وہ دن آیا کہ امریکا کی مانند روسی بھی افغانستان سے ’’ذلیل و خوار‘‘ ہو کر نکل گئے اور ہم خوشی سے نہال ہو گئے۔

طویل عرصے کے بعد ہمیں قلبی سکون اور آزادی جیسی نعمتیں میسر آئیں۔ کچھ ہی دنوں بعد مجھے میرے دوستوں نے بجھے بجھے لہجے میں بتایا کہ ہم جس بھی سرکاری دفتر میں جاتے ہیں وہاں ہم ایک دوست ملک کے عہدیداروں کو پاتے ہیں۔

یوں لگتا ہے جیسے روسیوں کی جگہ پر کوئی اور غلبہ پانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ پھر میں نے خود کابل میں کئی دفاتر کا چکر لگایا اور دیکھا کہ اہم مقامات پر واقعی پڑوسی ملک کے عہدیدار کے لوگ موجود تھے۔

شاید وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے روس کو افغانستان سے نکالا ہے اس لئے اب افغانستان ہماری STRATEGIC DEPTH یعنی دفاعی صحن یا دفاعی وسعت کا حصہ ہے۔

افغان دوست نے سرد آہ بھری اور بولا، اس صورتحال کیخلاف افغانستان کے باشعور حلقوں میں شدید ردِعمل ہوا اور اندر ہی اندر محبت کی جگہ نفرت کے جراثیم پرورش پانے لگے۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُن دنوں ہمارے لیے امریکا کے دروازے کھلے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے لیے ہجرت کر جانا بہتر ہے چنانچہ میں اپنے سارے خاندان کو لیکر امریکا آ گیا۔ اب کوئی دو دہائیوں سے میں امریکا کا شہری ہوں لیکن افغانستان کے لئے فکرمند اور پریشان رہتا ہوں۔

میری اولاد کو تو افغانستان سے نسبت نہیں لیکن افغانستان میرے جسم اور روح کا حصہ ہے، کبھی کبھی اداسی شدت اختیار کر جائے تو افغانستان کا چکر لگا آتا ہوں۔ میرا چھوٹا بھائی اور دوسرے رشتے دار ہیں، اُن کو کبھی کبھی ڈالرز بھی بھجواتا رہتا ہوں کیونکہ وہ ضرورت مند ہیں۔ میرے امریکا قیام کے دوران اُس سے دو ملاقاتیں رہیں، وہ خاص طور پر مرحوم جنرل حمید گل اور ہمارے بعض اداروں سے ناراض تھا اور ہماری دفاعی وسعت کی خواہش پر سوال اٹھاتا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ شاید پاکستان کے حکمت کار افغانوں کے مزاج کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔

افغان اپنے معاملات اور آزادی میں مداخلت کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اقبال کے یہ ’’مردانِ کوہ و دمن‘‘ قلبی، روحانی اور ذہنی طور پر مکمل آزاد ہیں اور کسی طرح کی کسی بھی شکل میں غلامی سے نفرت کرتے ہیں۔

بھارت نے بڑی چالبازی سے اپنی راہ بنائی اور اس حکمت میں پاکستانی رویوں نے بھارت کیلئے راہ ہموار کی۔ بھارت تعمیر نو، خدمت، سرمایہ کاری اور محبت کا لبادہ اوڑھ کر داخل ہوا جبکہ پاکستانی قیادتیں فتح اور فاتح کے نشے میں سرشار تھیں۔

70 ہزار قیمتی جانوں کی قربانی اور ایک سو ارب سے زیادہ ڈالرز خرچ کرکے بھی اگر پاکستانی قیادت نے ’’ہوش مندی‘‘ اور بصیرت سے کام نہ لیا تو اس کی ساری ’’کیتی کرائی‘‘ پر پانی پھر جائے گا یعنی ساری محنت اور قربانی رائیگاں جائے گی۔

آج اس افغان دوست کا امریکا سے ’’مبارکبادی‘‘ فون آیا تو کئی برس قبل کی یہ باتیں یاد آ گئیں۔ ماضی تاریخ ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق سیکھنا ہی آئندہ کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

میرے اس افغان دوست کو اس تاریخی معاہدے کے بعد بہت سے خطرات دکھائی دے رہے تھے لیکن اسے سب سے بڑا خطرہ کابل میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام کے حوالے سے تھا، اس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن، استحکام اور روشن مستقبل کیلئے ایک ایسی مرکزی حکومت کا قیام ضروری ہے جو مضبوط، بااختیار اور طاقتور ہو لیکن مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ افغانستان میں حکمرانی کے خواہشمندوں کی تعداد خاصی ہے اور مختلف عسکری قوتیں مختلف حصوں اور علاقوں پر قابض ہیں۔

اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور طالبان قیادت کے علاوہ کئی اور قوتیں اقتدار پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ ان سب کو کسی نہ کسی بیرونی طاقت کی حمایت حاصل ہے، ان تمام قوتوں کا کسی ایک شخصیت یا اتھارٹی پر متفق ہونا اور ایثار کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔

اتفاق رائے کیلئے جس آئینی و سیاسی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس قدر کمزور اور نازک ہے کہ اقتدار کی خواہش مند قوتوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔

ان حالات میں پاکستان کیلئے بہترین پالیسی اندرونی رسہ کشی سے اجتناب لیکن اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ’’آسانیاں‘‘ پیدا کرنا ہے، کچھ ہمسائے اپنا اپنا وزن مختلف پلڑوں میں ڈالیں گے اور بالآخر گھاٹے میں رہیں گے۔ پاکستان افغانستان کی اخلاقی اور معاشی امداد کرے، افغانیوں کیلئے تجارت کے دروازے کھلے رکھے اور تعمیر نو میں حصہ ڈالے۔

برادرانہ رویوں سے نرم گوشے پیدا ہوں گے اور ’’پاکستان مخالفت‘‘ کی چنگاریاں آہستہ آستہ بجھ جائیں گی۔ اس میں ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کے حل کا راز مضمر ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔