Time 03 مارچ ، 2020
بلاگ

امریکا طالبان معاہدہ اور ہمارا مستقبل

فوٹو: بشکریہ اوہیو اسٹار 

افغان طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سنجیدہ چہرے کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے تو اکثر لوگوں کی نظریں ان پر جم گئیں، ان کے ساتھ ہوٹل کے المجلس ہال میں داخل ہوتے ہوئے کم و بیش دس کے قریب دیگر طالبان رہنما بھی تھے۔

کچھ طالبان پہلے ہی ہال میں دیگر ممالک کے مندوبین کے ہمراہ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ عبدالغنی برادر سر پر کالے رنگ کی پگڑی باندھے ہال میں موجود افراد کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی رو میں اپنی مخصوص نشست پر پہنچے، کچھ لوگوں سے ہاتھ ملایا اور بیٹھ گئے۔

ملا برادر کو دیکھتے ہوئے میری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ وہ ہال میں پہلے سے موجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے کیسے ملتے ہیں؟ حیران کن طور پر وہ مائیک پومپیو کے پاس سے گزرے اور ان پر توجہ دیے بغیر سیدھے اپنی نشست پر براجمان ہو گئے۔

اس وقت پومپیو سے ملنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور وہ ہاتھ ملانے میں مصروف تھے۔ یہ بظاہر طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی بڑی پیشرفت میں ایک چھوٹا سا غیر اہم واقعہ ہے جسے شاید کسی نے رپورٹ بھی نہ کیا ہو مگر یہ طالبان کے غیر معمولی اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔

جو طالبان امریکا سے معاہدے کے وقت ہی اتنے پُراعتماد ہیں وہ امریکا کے خطے سے چلے جانے کے بعد کتنے بااعتماد ہوں گے؟ شاید اس کا صحیح اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔

امریکی وزیر خارجہ نے اس تقریب سے خطاب اور اس کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں امن پر لیکچر دیا اور بتایا کہ طالبان نے القاعدہ اور اس جیسے دیگر گروپوں سے الگ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

حیران کن بات مگر یہ تھی کہ ملا عبدالغنی برادر نے اپنے خطاب میں افغانستان میں امن کی بات کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اب افغان عوام اسلامی حکومت کے تحت ایک کامیاب زندگی کا سفر شروع کریں گے۔

اس سے لگا کہ اب شاید امریکا افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام سے پریشان نہیں ہے۔ تھوڑی دیر میں معاہدے کا متن سامنے آیا تو پتا چلا کہ امریکا نے یہ معاہدہ طالبان یعنی اماراتِ اسلامیہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ وہ اماراتِ اسلامیہ کو نہیں مانتے۔ عجیب تضاد ہے؟

عملی طور پر معاہدے کے چار حصے ہیں، پہلا ابتدائیہ ہے جس میں سب سے پہلے اس یقین دہانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین امریکا یا اس کے کسی اتحادی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ دوسرے نمبر پر غیر ملکی افواج کے انخلا کی بات کی گئی ہے۔ اس حصے میں دس مارچ سے بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور طالبان اور افغان حکومت کی طرف سے قیدیوں کو چھوڑنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

ابتدائیے کے بعد پہلے حصے میں امریکیوں کی طرف سے کیے جانے والے وعدوں کی تفصیل موجود ہے جن میں 14ماہ کے اندر امریکا اور تمام غیر ملکی فوجوں کے انخلا کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ طالبان کی طرف سے دس مارچ تک 1000اور افغان حکومت کی طرف سے 5000قیدیوں کی رہائی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا کام افغان حکومت سے متعلق تھا اور امریکا نے یہ یقین دہانی اپنے طور پر طالبان کو کرا دی۔

معاہدے میں طالبان کے خلاف عائد عالمی پابندیوں کو نرم کرنے کیلئے ستائیس اگست کی تاریخ بھی دی گئی ہے۔اگلے حصے میں امارتِ اسلامیہ پر القاعدہ سمیت کسی بھی ایسی تنظیم یا فرد کو افغانستان کی سرزمین امریکا کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے پانچ پابندیوں کا ذکر ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ امارتِ اسلامیہ امریکی سیکورٹی کو خطرہ پہنچانے والے کسی بھی تنظیم یا فرد کو میزبانی و معاونت فراہم کرے گی نہ ہی سفری دستاویزات یا ویزہ۔

یہ شق بتاتی ہے کہ امریکا ذہنی طور پر افغانستان میں اقتدار طالبان کے ذریعے دے رہا ہے یا ایسا کرنے کیلئے تیار ہے۔ اگلے حصے میں امریکا کی طرف سے اقوام متحدہ سے اس معاہدے کی توثیق، افغانستان کی تعمیرِ نو اور بین الافغان مذاکرات میں تعاون کی یقین دہانیوں کا ذکر ہے یعنی طالبان کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔متن بتاتا ہے کہ یہ معاہدہ عملی طور پر طالبان کی فتح ہے۔

چار صفحات پر مشتمل یہ معاہدہ نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان میں جاری جنگ کے بعد سب سے بڑی پیشرفت ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اٹھارہ سال چار ماہ جاری رہنے والی جنگ میں افغانستان اور پاکستان کو کیا ملا؟

افغانستان نے لاکھوں افراد مروائے، پاکستان نے بھی پچاس ہزار جانوں کی قربانی دی۔ آج افغانستان میں بھوک ننگ عروج پر ہے تو پاکستان بھی معاشی بحرانوں کی زد میں ہے۔

افغانستان نے اسامہ بن لادن اور عسکریت پسند گروپوں کا ساتھ دے کر اپنے عوام کیلئے زندگیاں مشکل کیں تو پاکستان نے یہی نتائج امریکا کا ساتھ دے کر حاصل کیے۔

آج افغانستان میں پاکستان کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارا سفارتخانہ متعدد بار نذرِ آتش کیا گیا ہے۔ ہم افغان عوام کی نظروں میں بھی گرے اور معاشی طور پر کمزور بھی ہوئے۔

امریکا پہلے بھی طاقتور اور معاشی طور پر مستحکم تھا جبکہ ہم مقروض اور بدحال تھے۔ صورتحال اب بھی ویسی ہی ہے، صرف اتنی تبدیلی آئی ہے کہ امریکا پہلے سے زیادہ طاقتور ہوا اور ہم پہلے سے زیادہ بدحال۔

امریکا کی طرف سے سال 1983میں ویتنام سے بھی ایسا ہی معاہدہ کیا گیا تھا جو صرف دو سال بعد ہی ٹوٹ گیا۔

مجھے علم نہیں کہ طالبان اور امریکا کا یہ معاہدہ قائم رہے گا یا نہیں لیکن اتنا علم ضرور ہے کہ اگر افغانستان اور پاکستان نے باہمی تعلقات مثالی نہ بنائے، عوام کو امن اور بہتر معیارِ زندگی نہ دیا تو ہماری مخدوش صورتحال میں مزید ابتری ہوگی، بہتری نہیں آئے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔