12 مارچ ، 2020
کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے تمام نجی اسکولوں کو تعلیم کے علاوہ غیر ضروری فیسوں کی وصولی سے روک دیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں نجی اسکول میں مختلف پروگراموں کے نام پرفیس وصولی کے خلاف درخواست دائر کی گئی جس کی سماعت جسٹس محمدعلی مظہر کی سربراہی میں بینچ نے کی۔
سماعت میں ڈائریکٹرجنرل پرائیوٹ اسکولز منسوب صدیقی پیش ہوئے جن سے فاضل جج نے استفسار کیا کہ ڈائریکٹر پرائیویٹ اسکول ایجوکیشن کیا کر رہے ہیں؟ والدین آپ کے پاس داخلہ کروا کر پھنس گئےہیں۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپنے بنائے گئے رولز ہی معلوم نہیں، جب ایک فیس وصول کرلی جاتی ہے تو دیگر پروگرامز کے نام پر فیسیں وصول کرنےکی کیا تُک ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ ٹیوشن فیس، اسپورٹس اور فوٹوکاپی کے نام پرالگ الگ فیس کیوں وصول کی جارہی ہے؟
ڈائریکٹر پرائیویٹ اسکول ایجوکیشن نے جواب دیا کہ اسپورٹس کا الگ سے ٹیچر رکھا ہوا ہے اس لیے فیس وصول کرتے ہیں، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ پھرفزکس، ریاضی اور دیگر مضامین کے ٹیچرز بھی رکھےگئے ہیں، ان کی بھی الگ سےفیس لینا شروع کردیں۔
عدالت نے اسکول انتظامیہ پر برستے ہوئے کہا کہ پانی کا گلاس بھی بیچیں گے کیا؟ کبھی خود بھی کچھ کریں، یا سب کچھ بچوں سے لیں گے؟ آخر اسکول چلا رہے ہیں یا کوئی پراپرٹی؟
عدالت نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے حکم کو چیلنج کر رہے ہیں؟ ختم کرو، بند کرو ایسے اسکول کو۔
ڈائریکٹر جنرل پرائیوٹ اسکولز کا کہنا تھا کہ ٹیوشن فیس کے علاوہ تمام چارجز غیرقانونی ہیں اس پر عدالت نے پوچھا کہ جوچارجز غیر قانونی ہیں وہ کیوں لے رہے ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرائیوٹ اسکول والوں نے تو تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے اسکول انتظامیہ کو مختلف پروگراموں کے نام پر فیس وصول کرنے سے روک دیا اور ریگولیٹری اتھارٹی کو والدین کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے کا حکم دیا ہے۔