06 اپریل ، 2020
20فروری 2020، وزیراعظم کا ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی بی احمد کمال پر مشتمل 3رکنی کمیٹی بنانا، مقصد، چینی کی قیمت کیوں بڑھی، کس کس نے فائدہ اٹھایا، کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا، کمیٹی کا دائرہ کار، محدود اختیارات سامنے آئے۔
وزیراعظم کو مشورہ، کمیٹی کو کمیشن کا درجہ دیا جائے، مشورہ مان لیا گیا، کمیٹی کو کمیشن کا درجہ مل گیا، کمیشن نے چینی مافیاز کے حوالے سے گزرے پانچ سال مطلب 2015سے 2019پر کام شروع کیا، 14سوالات پر مشتمل سوالنامہ، مرکز، پنجاب، کے پی، سندھ حکومتوں، شوگر مل مالکان سے سوالات کے سیشن، 10شوگر ملوں کا آڈٹ، پہلے کمیشن کے پاس 2ہفتے کا وقت تھا پھر کام کی نوعیت دیکھتے ہوئے کمیشن کو مزید 3ہفتے کا وقت دے دیا گیا۔
کمیشن نے 31مارچ کو اپنی فائنل رپورٹ جمع کروادی۔ کمیشن رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمت دسمبر 2018میں جب 55روپے فی کلو تھی، تب چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی، جس سے چینی کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی، ایک طرف شوگر مافیا چینی ایکسپورٹ کر ر ہا تھا۔
دوسری طرف وزیرخزانہ اسد عمرسے چینی پر سبسڈی لینے پہنچ گیا، اسد عمر نے انکار کر دیا، پھر مبینہ طور پر جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت اکٹھے ہوئے، مبینہ طورپر وزیراعلیٰ پنجاب سے سفارش کی گئی اورپنجاب حکومت نے 5روپے 35پیسے فی کلو کے حساب سے 3ارب کی سبسڈی دے دی، اس سبسڈی سے جہانگیر ترین کی کمپنی کو 56کروڑ، شمیم خان کی کمپنی کو 40کروڑ، خسروبختیار کے بھائی کی کمپنی کو 45کروڑ اور ہنزہ گروپ کو 43کروڑ کا فائدہ ہوا، کمیشن رپورٹ کے مطابق ملک میں چینی کم تھی۔
چینی ایکسپورٹ کر دی گئی، چینی کی مزید قلت ہوئی، جون 2019ءتک چینی کی قیمت میں 16روپے فی کلو کا اضافہ ہوگیا اور چینی 71روپے فی کلو تک جا پہنچی، کمیشن رپورٹ بتائے کہ جب 2015ء سے 2019کے عرصے پر تحقیق، تفتیش کی گئی تو پتاچلا ایک طرف چینی کی قیمت مسلسل بڑھائی گئی جبکہ دوسری طرف شوگر مافیازنے 25ارب حکومت سے بھی لے لئے، ان 25ارب میں سے 22ارب نواز شریف، شاہد خاقان عباسی دور میں شوگر مافیاز کو دیے گئے جبکہ پہلے بتا چکا 3ارب سبسڈی سائیں بزدار نے دی۔
ان 25ارب میں سے جہانگیر ترین کے کزن شمیم خان کے آروائی گروپ نے 4ارب، خسروبختیار کے بھائی نے 4ارب، جہانگیر ترین 3ارب، ہنزہ گروپ 2ارب 90کروڑ، فاطمہ گروپ 2ارب 30کروڑ، شریف گروپ نے 1ارب 40کروڑ، اومنی گروپ نے 90کروڑ حاصل کئے۔
یہاں یہ بھی سنتے جائیے، جہانگیر ترین کے کے شوگر پارٹنرمخدوم احمد عالم، خسرو بختیار فیملی کے شوگر پارٹنر چوہدری فیملی اور چوہدری منیر، جہانگیر ترین کے کزن شمیم خان کا پارٹنر نعمان خان، مطلب کوئی تحریک انصاف سے، کوئی پیپلز پارٹی سے، کسی کا تعلق نون لیگ سے، کوئی قاف لیگ سے، لیکن سب ایک دوسرے کے پارٹنر، جی تو چاہ رہا۔
تین رکنی کمیشن کو ملی شوگر مافیاز کی دھمکیاں، دباؤ، پریشر، لالچ کے دلچسپ قصے سناؤں، جی تو یہ بھی چاہ رہا، آپ کو شریفوں کی شوگر ملوں سے جڑی دلچسپ کہانیاں بھی سناؤں، مگر پھر سوچوں بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔
یہ سب دلچسپ قصے، کہانیاں کسی اگلے کالم میں سہی، ابھی صرف یہی سن لیں، ہاؤس آف شریف اپنی شوگر ملوں سے سارا پیسہ نکال چکا، اب ان کی شوگر ملوں میں صرف بینکوں کا پیسہ لگا ہوا، ہے نا عقلمندی والی بات، کل کلاں اگر عدالت، نیب ان کی شوگر ملوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو شریف فیملی کو ایک دھیلے کا نقصان نہیں ہوگا، بینک، عدالت اور نیب جانے، یہ ہاؤس آف شریف کی پرانی عادت، برے وقتوں میں سرمایہ سمیٹ کر ایک طرف ہوجائے، اچھے وقتوں کا انتظار کرے، اچھا وقت آئے، کاروبار پھرسے وہیں شروع، جہاں ختم ہوا تھا۔
22جنوری 2020،گندم بحران پر وزیراعظم نے واجد ضیاء کی سربراہی میں ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مبارک زیب پر مشتمل 3رکنی کمیٹی بنائی، کمیٹی کو ملک میں گندم بحران، آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کیلئے کہا گیا۔
کمیٹی رپورٹ کے مطابق ملک کو کتنی گندم چاہئے، کبھی سوچا ہی نہیں گیا، گندم کی پیداوار کم تھی، کسی کو پتا ہی نہیں تھا، پاسکو نے خریداری کا ہدف پورا نہیں کیا، پنجاب گندم خریداری ہدف 4ملین ٹن، صرف 3.3ملین ٹن خریدی، عثمان بزدار نے ایک سال میں 4سیکرٹری فوڈ بدلے، جس کی وجہ سے مقررہ وقت پر مطلوبہ کام نہ ہوسکا، پنجاب کی ملوں نے گندم ا سمگل کی۔
آٹا مارکیٹ میں نہیں دیا، محکمہ خوراک ان کی کرپشن کا حصہ بن کر خاموش رہا، وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی وزیراعظم کو غلط اعدادوشمار بتاتے رہے، خیبر پختونخوا کا ہدف 4لاکھ ٹن گندم تھا، صرف 50ہزار ٹن گندم خریدی۔
سندھ نے تو حد کر دی، وفاق سے وعدہ کیا گندم خریدے گا، مگر ایک دانہ گندم نہ خریدی، لہٰذا خیبر پختونخوا، سندھ میں گندم کی قلت پیداہوئی، قیمتیں بڑھیں، پنجاب سے گندم خیبر پختونخوا، سندھ گئی اور بالآخر پنجاب میں بھی گندم بحران پیدا ہوگیا۔
37صفحات کی 5سالہ شوگر مافیارپورٹ پر واجد ضیاء، گوہر نفیس، احمد کمال مبارکباد کے مستحق، حیرانی ہو، فوڈ سیکورٹی تحفظات کے باوجود ای سی سی کا10لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجاز ت دینا، اسد عمر کا سبسڈی ناں، سائیں بزدار کا سبسڈی ہاں، شوگرملز، ہول سیل ڈیلر ز کی جانب سے فاروڈ بائینگ اور سٹے کی نشاندہی ہونا، اسی طرح واجد ضیاء، گوہر نفیس، مبارک زیب کی 67صفحاتی گندم بحران رپورٹ بھی پڑھنے کے قابل، حالت یہ، ایک طر ف انسانوں کو گندم مل نہیں رہی تھی جبکہ دوسری طرف پولٹری فارم والے مرغیوں کیلئے سستے داموں گندم خریدی جا رہے تھے۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے گندم، چینی بحران پر رپورٹیں لاکر اپنا وعدہ پورا کر دیا، بلاشبہ یہ پہلے کبھی نہ ہوا کہ کوئی وزیراعظم ایسی رپورٹ بنوائے، پبلک کر دے۔
جس میں ہو کہ آٹا، چینی بحران کا ذمہ دار وفاق، پنجاب، پختونخوا مطلب میری حکومتیں، جس میں اپنے وزیروں، بیورو کریسی اور چہیتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہو، بلاشبہ یہ قابلِ تعریف، قابلِ تقلید بات، لیکن کیا کریں۔
ہم جن کے سامنے پاناما لیکس کی 10والیمز رپورٹ، جعلی اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کی 25والیمز رپورٹس ٹائیں ٹائیں فش ہو چکیں، انہیں اس بار بھی خطرہ یہی کہ یہ چند دن کا شور، کچھ نہیں ہوگا، مگر پھر بھی دعا، امید یہی، اللہ کرے اس بار معاملہ منطقی انجام تک پہنچے، ملک چوس جونکوں کو سزا مل سکے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔