15 اپریل ، 2020
جب سے پیدا ہوئے یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن ماضی میں یہ بات صرف حکومت کے مخالفین کی زبانی سنا کرتے تھے۔ اب کی بار ذرا معاملہ یوں مختلف ہے اور تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکومت کی حامیت کرنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
ہم یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے وقت قوم کو حوصلہ دینے کے بجائے بھوک اور بیروزگاری سے ڈراتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات بھی مسئلہ ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تنازع بھی مسئلہ ہے، افغانستان بھی پاکستان کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور تفرقہ بازی بھی مسئلہ ہے اور اسی طرح کے سیکڑوں اور مسائل بھی ہیں جن کا اس ملک کو سامنا ہے لیکن اس بات پر اجماع کی سی کیفیت ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔
یہ آج کی بات نہیں بلکہ 2017میں جب پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ پانچ فیصد سے زیادہ تھا تو اس وقت اس ملک کے بااختیار حلقے، ماہرین معیشت اور خود عمران خان صاحب ہمیں بتاتے رہتے کہ ملک معاشی تباہی کی وجہ سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
میاں نواز شریف کی حکومت سے جان چھڑانے اور عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے پیچھے ایک بنیادی محرک یہ بھی تھا کہ ملک کے مقتدر حلقے جب ہندوستانی معیشت کے ساتھ پاکستانی معیشت کا موازنہ کرتے تھے تو اس بات سے تشویش میں مبتلا ہو جاتے تھے کہ اس اقتصادی صورت حال کے ساتھ مستقبل میں پاکستان کو بقا کا سوال درپیش ہو سکتا ہے۔
عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے پیچھے ایک سوچ یہ بھی تھی کہ ان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکال دیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد است۔ معاملہ اُلٹ ہو گیا۔ جی ڈی پی گروتھ پانچ سے دو فیصد پر آگیا اور اگلے سال کے لئے نیگٹو گروتھ کی پیشگوئی ہورہی ہے۔ معیشت کا پہیہ رک گیا۔ سرمایہ اندر آنے کی بجائے بیرون ملک بھاگنے لگا۔ کم و بیش ہر صنعت بشمول میڈیا بحران کا شکار ہوگیا۔
سی پیک پر کام سست پڑ گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے رویے سے چینی ناراض، سعودی پریشان اور ترک حیران ہے۔ یہ وہ دوست ممالک تھے جن کی طرف ہم مستقبل میں اپنی معیشت میں سہارے کے لئے دیکھ رہے تھے۔ رہا امریکہ تو پاکستان سے اس کی افغانستان کے حوالے سے محتاجی ختم ہورہی ہے اور مستقبل میں اس کی طرف سے کسی معاشی سہارے کا امکان نہیں۔
یوں بھی کورونا کے بعد ہر ملک کو اپنی اپنی پڑی ہے اور کوئی ملک کسی دوسرے کا غم بانٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ اب اس حالت میں پاکستان کورونا کی وبا کی زد میں آگیا اور یہ ایسا ہمہ پہلو عذاب ہے کہ اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس سے انسانی زندگیوں کو بھی خطرہ ہے اور انسانی ذہنوں کو بھی۔ جسمانی نقصان سے زیادہ اس کے نفسیاتی نقصانات خطرناک ہیں۔ کوئی خوف کا شکار ہے تو کوئی چڑچڑے پن کا۔ یہ تو ابھی آغاز ہے نہ جانے آگے کیا ہوگا۔ اس کے مذہبی اور سماجی اثرات بھی ہیں۔
اگر صحیح روڈ میپ نہیں بنایا گیا تو آنے والے رمضان میں ہر مسجد کے سامنے لڑائیاں ہوں گی۔ پاکستان میں تو بعض بدبختوں نے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھی کوشش کی۔ جب مصیبت کی گھڑی ہوتی ہے تو پاکستان میں بعض اوقات صوبوں، قومیتوں اور اداروں کے مابین بھی الزام تراشی اور تصادم بڑھ جاتاہے جبکہ کورونا نے معیشت کا جو ستیاناس کرنا ہے، اس کا اعتراف تو وزیراعظم سے لے کر ماہرین معیشت تک ہر سمجھدار بندہ کررہا ہے۔
اب اگر ہم یہ بات مان لیں کہ نواز شریف کی حکومت میں معیشت کی حالت پریشان کن تھی تو عمران خان کی حکومت اس پر ایک اور آفت نازل ہوئی اور اب کورونا جو ام الافات ہے، اس کے اوپر ایک اور آفت نازل ہوئی۔
یہی نقشہ اور تناظر ہے جو ہم جیسوں کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ اب یا تو حکومت کے پاس کوئی فارمولا ہونا چاہئے تھا یا پھر اپوزیشن کے پاس لیکن افسوس اس نازک دور میں حکومت کا کردار جاہلانہ تو اپوزیشن کا مجرمانہ ہے۔ عمران خان کے پاس کوئی وژن ہے ، کوئی فارمولا اور نہ کوئی ہوم ورک۔
وزیراعظم بننے کے بعد تکبر کے اس بلندترین مقام پر فائز ہو چکے ہیں کہ اب جہانگیر ترین جیسے محسنوں کو بھی نہیں سنتے۔ وہ اپوزیشن کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ کسی اور کی رہنمائی کی۔ وہ ہر مسئلے کا حل اپنی ایک تقریر سمجھتے ہیں۔ جو جتنا بڑا خوشامدی ہے وہ ان کے اتنے قریب ہوتا ہے اور جو جتنی عقل کی بات کرے وہ اتناان کی بیڈ بکس میں آجاتا ہے۔
ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس بحرانی کیفیت کا کوئی حل نکال لیں گے، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ جب حکومت کی یہ حالت ہے تو اپوزیشن کا فرض بنتا تھا کہ وہ کوئی متفقہ لائحہ عمل بنا کر کوئی فارمولا سامنے لے آتی کہ جس کے نتیجے میں ہم پہلے کورونا سے اور اس کے بعد معیشت کے مسئلے سے نمٹنے کے قابل ہوجاتے لیکن اس نے بھی اپنے لئے مجرمانہ کردار چنا ہے۔
اپوزیشن لیڈر اپنی خاموشی اور لاتعلقی کے ذریعے ان لوگوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں جو عمران خان کو لائے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ سزا عمران خان کو مل رہی ہے اور نہ لانے والوں کو بلکہ پورے ملک اور اس کے غریب عوام کو مل رہی ہے۔ زرداری صاحب کے دو مسائل تھے۔
ایک اپنے کیسز اور دوسرا سندھ کی حکومت۔ پیپلزپارٹی تب تک متحرک تھی جب تک زرداری صاحب جیل میں تھے اور سندھ کی حکومت کو خطرات لاحق تھے ۔ ڈیل کرکے انہوں نے اپنے آپ کو جیل سے نکلوا دیا اور سندھ حکومت کی گارنٹی لے لی۔ یوں اب پیپلز پارٹی صرف وقت گزار رہی ہے بلکہ ملک کی ابتر صورت حال انجوائے کررہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) اس وقت تک متحرک تھی جب تک میاں نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے ۔
یوں اب وہ بھی تماشہ دیکھنے اور طعنے دینے پر اکتفا کررہی ہے ۔ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے لیکن دکھائی یہ دیتا ہے کہ ن لیگ کی قیادت موجودہ بحرانی کیفیت پر بہت خوش ہے۔ وہ سمجھ رہی ہے کہ عمران خان کی حمایت کرنے والوں کو سزا مل رہی ہے اور کچھ کئے بغیر ان کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے۔
پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ(ن) ہو، جے یو آئی ہو یا کوئی اور اپوزیشن جماعت، آپ ان کی قیادت سے سوال کریں کہ وہ کچھ کرتے کیوں نہیں ہیں تو ان کی باتوں کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ جب کوئی اشارہ نہیں ہے تو پھر ہم کچھ کیوں کریں۔ جبکہ طاقتور حلقوں کی اپنی مشکلات ہیں۔ ایک واضح روڈ میپ اور اپوزیشن کی طرف سے فیس سیونگ نہ ہو تو وہ کسی نئی مشق کا رسک کیسے لیں۔
یوں اس وقت دیکھ لیں تو پاکستان مکمل طور پر اللہ اور حالات کے سپرد ہے۔ حکومت کا کردار جاہلانہ، اپوزیشن کا مجرمانہ اور اداروں کا پراسرارانہ ہے۔ یا اللہ تو ہی اس ملک کی حفاظت فرما۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔