Time 16 اپریل ، 2020
بلاگ

ضمیر کا بوجھ اور ایس ایم ظفر

فوٹو فائل—

موت ہمارے سامنے کھڑی ہے لیکن ہم میں سے اکثر عقل مندوں کا خیال ہے کہ میں تو نہیں مروں گا البتہ دوسروں کے مرنے کا بہت خدشہ ہے۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بدل دیا ہے لیکن اہلِ پاکستان ابھی تک نہیں بدلے۔ وائرس سے بچنے کیلئے ماسک تو پہنا جا رہا ہے لیکن ماسک پہن کر جھوٹ بولنے کا سلسلہ جاری ہے۔

 تادمِ تحریر دنیا میں بیس لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہیں اور سوا لاکھ سے زائد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک پاکستان میں چھ ہزار کے قریب افراد اس وبا کی لپیٹ میں آئے اور مرنے والوں کی تعداد ابھی سو سے کچھ اوپر ہے۔ 

شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت لاک ڈائون میں نرمی کے اعلانات کر رہی ہے، تاجر دکانیں کھولنے کیلئے بےچین ہیں اور علماء نے کچھ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد میں باجماعت نمازوں کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ خدانخواستہ امریکہ، اٹلی، اسپین اور برطانیہ کی طرح اس وبا نے پاکستان میں بھی تباہی مچا دی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ افسوس کہ لاک ڈائون پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ 

کچھ وفاقی وزیر سندھ کی صوبائی حکومت کی ایسی تیسی کر رہے ہیں اور سندھ کے وزیر وفاقی حکومت کو جواب دے رہے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال میں غریب لوگوں کیلئے امدادی کارروائیوں کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور کچھ لوگوں کے سر پر انتقام بھی سوار ہے۔ ہمارے اہلِ اختیار کو یہ احساس نہیں کہ پوری دنیا ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ لوگ گھروں میں دبک کر کتابیں پڑھ اور لکھ رہے ہیں۔

 آج صبح مجھے ایک صاحب نے فون پر بتایا کہ وہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے پس منظر اور مقدمے پر کتاب لکھ رہے ہیں اس سلسلے میں انہیں معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے جاری کردہ بیان کی نقل چاہئے۔ 

میں نے پوچھا کہ یہ بیان اخبارات میں شائع ہو چکا ہے آپ کو اصل بیان کی نقل کیوں چاہئے؟ انہوں نے کہا کہ ایس ایم ظفر کی جاری کردہ پریس ریلیز کی اپنی ایک اہمیت ہے کیونکہ ایس ایم ظفر کو قانونی حلقوں میں استادوں کا استاد سمجھا جاتا ہے۔ اتفاق سے ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی یہ پریس ریلیز ای میل پر مجھے ہی بھیجی تھی لہٰذا میں نے ان کی ای میل اپنے مہربان کو فارورڈ کر دی جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ایس ایم ظفر صاحب کا میر شکیل الرحمٰن کے حق میں بیان کئی لوگوں کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث بنا اور کچھ نکتہ دانوں کو ناگوار بھی گزرا۔ ان کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کے بہت قریب ہیں۔ وہ جنرل ایوب خان کے وزیر قانون بن گئے تھے لیکن شاہ صاحب نے جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ وہ بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے صدارتی نظام کو پاکستان کیلئے بہت نقصان دہ قرار دیتے ہیں کیونکہ ایوب خان کے صدارتی نظام کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ خود بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کے صاحبزادے علی ظفر بھی سپریم کورٹ بار کے صدر رہ چکے ہیں۔

 علی ظفر کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کی نذر ہو گئے لیکن جب تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو ایس ایم ظفر خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے ایک زوردار بیان جاری کرکے انصاف کے ایوانوں کو بھی جھنجوڑ دیا کیونکہ وہاں بیٹھے کئی منصف شاہ صاحب کو اپنا استاد سمجھتے ہیں۔ 

حال ہی میں ایس ایم ظفر صاحب کی ایک نئی کتاب History of Pakistan Reinterpretedکے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان لکھا حالانکہ کتاب میں ان کے سسر جسٹس نسیم حسن شاہ کے بارے میں ایس ایم ظفر نے ایسے انکشافات کئے ہیں کہ دل و دماغ ہل کر رہ جاتا ہے۔ 

ایس ایم ظفر نے لکھا ہے کہ جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو 3اپریل 1979کو کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہاں 4اپریل کو انہیں پھانسی دی جا سکے لیکن موسم خراب ہو گیا اور بھٹو کو طیارے کے ذریعہ کراچی لیجانا ممکن نہ رہا۔ پھانسی سے کچھ دیر قبل جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد نے بھٹو صاحب سے کہا کہ براہِ کرم اپنی وصیت لکھوا دیں تو بھٹو نے جواب میں کہا کہ میری وصیت اب تاریخ لکھے گی۔

 ایس ایم ظفر نے لکھا ہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کو بھٹو حکومت نے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بنایا تھا لیکن جسٹس مولوی مشتاق حسین اور شریف الدین پیرزادہ نے انہیں بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل کرنے کا مشورہ دیا حالانکہ اس بنچ میں صرف مستقل ججوں کو بیٹھنا چاہئے تھا۔ اس بنچ نے بھٹو کو پھانسی کی سزا برقرار رکھی تھی اور نسیم حسن شاہ پھانسی کا فیصلہ کرنے والوں میں شامل تھے۔

ریٹائرمنٹ کے کچھ سال بعد نسیم حسن شاہ نے Memories and Reflectionکے نام سے آپ بیتی لکھی۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ اس کتاب کےGhost Writerیعنی خاموش مصنف نصیر فاروقی تھے۔ نسیم حسن شاہ نے کتاب کا مسودہ ایس ایم ظفر کو بھجوایا تاکہ اشاعت سے قبل ان کا مشورہ لیا جا سکے۔ نسیم حسن شاہ نے مسودے میں دعویٰ کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس انوار الحق نے مجھے کہا کہ بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کیلئے ان ججوں سے بات کرو جو پھانسی کے مخالف ہیں اگر سب متفقہ طور پر عمر قید کا فیصلہ کرلیں تو بھٹو کی جان بچ جائے گی اور یہ تاثر زائل ہو جائے گا کہ پنجابی ججوں نے بھٹو کو پھانسی دلوائی۔

 نسیم حسن شاہ نے جسٹس دراب پٹیل سے بات کی تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کر دیا۔ ایس ایم ظفر نے نصیر فاروقی سے کہا کہ اس واقعہ کو مسودے میں شامل رکھنے پر نظرثانی کر لیں یہ بڑا حساس معاملہ ہے۔ نصیر فاروقی نے نسیم حسن شاہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں یہ واقعہ منظر عام پر لاکر اپنے ضمیر سے بوجھ اتارنا چاہتا ہوں۔

ایس ایم ظفر کی اس نئی کتاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا بھی ذکر ہے۔ 2004میں امریکی دبائو پر ڈاکٹر صاحب کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو ایک دن جنرل پرویز مشرف نے ایس ایم ظفر کو کہا کہ مجھے پتا چلا ہے آپ نے ڈاکٹر قدیر کو مشورہ دیا ہے کہ مجھ سے پوچھے بغیر کسی دستاویز پر دستخط نہ کریں، مشرف نے کہا کہ یہ اب قانونی معاملہ نہیں رہا لہٰذا آپ اس میں مداخلت نہ کریں اور 5فروری 2004کو ڈاکٹر قدیر کو ٹی وی پر لاکر ان سے اعتراف جرم کروا لیا گیا۔ 

شاید یہ باتیں لکھ کر ایس ایم ظفر نے بھی اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر لیا لیکن سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے تو 2010میں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر لیا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پرویز مشرف ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے اور امریکی ہوائی جہاز آ چکا تھا لیکن میں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ مشرف نے جمالی کے اس دعوے کی تردید کر دی تھی لیکن جمالی صاحب اپنے بیان پر قائم رہے۔ 

کورونا کے اس دور میں کئی کتابیں لکھی جا رہی ہیں جن میں اہم لوگ اپنے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کریں گے اور ایس ایم ظفر کی طرح یہ انکشاف کریں گے کہ جب دنیا کورونا سے لڑرہی تھی تو کچھ صاحبانِ اختیار نے کب اور کہاں میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ضمیر کا بوجھ وہی ہلکا کرتے ہیں جنہیں اپنی موت یاد رہتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔