بلاگ
Time 26 اپریل ، 2020

کیا یہ ممکن ہے؟

فوٹو فائل—

کیا یہ ممکن ہے کہ ’’کورونا‘‘ ہمیں نظم و ضبط سکھا جائے۔ بازار ہمیشہ صبح آٹھ بجے کھل جائیں اور چھ بجے بند ہو جائیں۔ اس طرح شاید بجلی کی بچت بھی ہو جائے۔ ماضی میں کوشش ہوئی ہے مگر ناکام۔ بھلا ہو اس کورونا کا صبح سے دکانوں پر رش ہوتا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ کورونا کے خوف سے نہیں گندگی سے بیماریوں سے بچنے کیلئے دن میں دو تین بار صابن سے ہاتھ دھونا شروع کر دیں، ابھی تو اسے کچھ ماہ رہنا ہے تو عادت پڑ سکتی ہے۔

یقین جانئے کورونا، آیا نہیں بلایا گیا ہے۔ ہم نے خود اپنی ناقص پالیسیوں کی بناپر اسے دعوت دی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ چین کے راستے نہیں تفتان کے راستے سے آیا کیونکہ بارڈر بند نہیں تھا۔ اب آپ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہیں وائرس تو آگیا اور چونکہ یہ ایک وبا ہے تو پھیل بھی گیا۔ مگر چونکہ ہم غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والی قوم ہیں سو ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ اب تو آگیا ہے تو غلطیوں سے نہ کورونا سے ہی کچھ سیکھ لیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ یہ کورونا ہمیں قطار میں کھڑے رہنا سکھا دے۔ منہ پر ماسک ایسے ہی پہننا سیکھ جائیں جیساکہ آنکھ پر چشمہ اب تو ماسک میں بھی ہم برانڈ تلاش کرتے ہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس مبارک مہینے میں چھ فٹ کے فاصلے سے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں اور پھر سیدھے گھر جائیں۔ مساجد کے باہر رش نہ لگائیں۔ پھل یا دوسری اشیاء بیچنے والے ٹھیلوں کو وہاں کھڑے نہ ہونے دیا جائے۔ اب جبکہ حکومت نے ایک رسک ہی لیا ہے تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ تراویح، سحری اور افطار احسن طریقوں سے ہو جائیں۔ سب اچھا ہوا تو ان شاء اللہ عید کی نماز بھی ہو گی البتہ روایتی ممکن نہ ہو۔ سماجی فاصلے گلے ملنے سے اجتناب، بس دور سے سلام، ایک دوسرے کے گھر جانے سے اجتناب، خود ہی سویّاں بنائو اور کھائو۔ کیا یہ سب ممکن ہے۔ بڑا مشکل ہے یہ تصور۔

ذرا سوچئے کیا یہ ممکن ہے کہ آپ صبح سویرے اُٹھیں اور بزرگوں کی دعائیں لئے بغیر گھر سے روانہ ہو جائیں۔ ہمارے ہاں تو دعا ماتھا چومے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس وبا نے تو ذرا بدتہذیب بھی بنا دیا ہے۔ پہلے چھینک آتی تھی تو ’’الحمدللہ‘‘ کہتے تھے۔ اب ڈر جاتے ہیں، قریب میں بیٹھے لوگ پانی پینے یا کسی اور وجہ سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ ہماری خالہ جواب ماشاء اللہ 94برس کی ہو گئیں ہیں، فون پر اکثر کہتی رہتی ہیں یہ کیا بد تمیزی ہے کبھی پیار تو کراتے جائو۔

کیا یہ ممکن ہے کہ رمضان میں روزمرہ کی خریداری میں اعتدال قائم کر سکیںتاکہ پھل دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں قابو میں رہیں۔ ذخیرہ اندوزی کے خلاف بڑا قانون آیا ہے۔ مگر جب بھی سخت آتا ہے تو صرف ’’ریٹ‘‘ اوپر جاتے ہیں۔ انسدادِ ذخیرہ اندوزی اسکارڈ یا فوڈ انسپکٹر کے۔

ویسے تو اب وقت کے ساتھ ساتھ محلوں کا کلچر بھی بدل گیا ہے ورنہ تو آپ کو پورے محلے کو پتا ہوتا تھا کہ کون سا گھر کس کا ہے۔ اب تو پڑوسی کا پتا بھی اُس کے گھر کسی شادی یا فوتیدگی کی صورت میں ہی چلتا ہے انتقال پر تعزیت کرنے میں بھی ہم منافقت سے کام لیتے ہیں۔ دوچار روایتی جملے، سامنے والا بھی سوچتا رہ جاتا ہے کہ مرحوم کی زندگی میں تو انہیں کبھی نہیں دیکھا۔

اب تو کورونا نے یہ فاصلے بھی بڑھا دیے ہیں۔ شہروں کو چھوڑیں دوست بتاتے ہیں کہ گائوں میں اب صبح و شام پنجاب میں احتیاط برتی جا رہی ہے۔ یہ ٹی وی اور موبائل نے لوگوں کو باخبر کر دیا ہے۔

مجھے تو یہ ’’کورونا‘‘ کچھ کچھ سیاسی بھی لگتا ہے۔ میں اُس غیر منطقی بحث کی بات نہیں کرتا جس میں امریکی صدر ٹرمپ سے لے کر یہاں کے لوگوں تک ’’ایک گہری سازش‘‘ قرار دے رہے ہیں، میں تو اس میں استعمال ہونے والی اصطلاحوں کی بات کرتا ہوں۔ ویسے چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ مجھے اس وقت سب سے بہترین کامیڈی شو ٹرمپ کی پریس کانفرنس لگتی ہے۔ مس نہ کیجئے گا۔ہمارے کئی رہنما خود بخود ’’قرنطینہ‘‘ میں چلے گئے ہیں۔ 

ایک دوسرے سے سماجی فاصلے رکھ رہے ہیں اور اس حد تک ماشاء اللہ سے احتیاط کر رہے ہیں کہ فون تک ایک دوسرے کو نہیں کر رہے۔ پولیس بھی اسے ’’سیاسی وائرس‘‘ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ یعنی کسی کے وائرس لگنے کی اطلاع آئی اور پورا علاقہ سیل کر دیا۔ بیمار سمیت اہل خانہ بھی اُٹھا کر ’’قرنطینہ‘‘ پہنچا دیے جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے نامعلوم مقام پر لے جاتے تھے، اب کم از کم مقام معلوم ہوتا ہے۔ ملنے پھر بھی نہیں جا سکتے۔ پہلے سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کیلئے محلہ سیل کر دیا جاتا تھا اب ’’کورونا‘‘ متاثر کو لے جانے کے لئے علاقہ ہی سیل کر دیا جاتا۔

آگے چلیں! کورونا میں بھی آپ آئسولیشن میں چلے جاتے ہیں اور سیاست میں بھی۔ ’’کورونا میں مبتلا ہوتے تو 14دن قرنطینہ سینٹر میں اور سیاسی معاملات میں گرفتار ہوئے تو 14دن کا ریمانڈ بعد میں اگر سنگین الزام میں جیل چلے گئے تو ’’بندوارڈ‘‘ یعنی مکمل قرنطینہ۔

ہم ٹھہرے شہروں والے لوگ ماسک بھی پہن لیں گے اور گلوز بھی مگر گائوں کی فضا میں تو خوشبو ہی خوشبو ہوتی ہے۔ آلودگی سے پاک کنویں کا پانی ہو یا کوئی اور ذریعہ، 30 روپے کی بوتل سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ 

وہاں تو اگر باہر چارپائی لگا کر پنچایت نہ ہو تو دن نہیں گزرتا۔ یقین جانیں اُن کے تبصرے اور تجزیہ ہم سے بہتر ہوتا ہے۔ وہ زمین کے لوگ ہیں مگر اللہ بھلا کرے اس ’’کورونا‘‘ کا سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ہمارا وزیراعظم دلیر آدمی ہے۔ کہتے ہیں ’’کورونا سے ڈرنا نہیں، گھبرانا نہیں، لڑنا ہے‘‘ اور ظاہر سے لڑنے کیلئے آپ کو میدان میں نکلنا پڑتا ہے ہو ہمارے لوگ سب کچھ بھلا کر باہر نکل پڑے۔ اب ظاہر ہے لڑائی چھ فٹ کے فاصلے سے تو ہو نہیں سکتی۔ 

نتائج کی پروا کئے بغیر کپتان کی آواز پر لبیک کہہ ڈالا۔ اب آپ کہتے رہیں کہ احتیاط کرو، سماجی فاصلہ رکھو۔ مگر ہم نے کہا کورونا اور جنگ میں سب جائز ہے… اب کیا وائرس روکنا ممکن ہے۔ بس دعا کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔