29 اپریل ، 2020
وفاقی حکومت نے اپوزیشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کا مجوزہ مسودہ تیار کر لیا۔
حکومت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ مسودے کے مطابق اب سے وفاق اور صوبائی ریگولیٹری باڈی کے دائرہ کار والے معاملات نیب نہیں دیکھ سکے گا اور نہ ہی کابینہ، ای سی سی، مشترکہ مفادات کونسل کے معاملات نیب کے دائرے کار میں آئیں گے۔
مجوزہ مسودے کے مطابق نیب کے دائرہ کار میں ٹیکس ڈیوٹی کے معاملات نہیں ہوں گے اور نہ ہی نیب ایک ارب روپے سے کم کرپشن پر تحقیقات کر سکے گا البتہ تمام انکوائریز اور انویسٹی گیشنز متعلقہ اداروں کو منتقل کر دی جائیں گی۔
اس کے علاوہ ایکنک یا وفاقی و صوبائی پالیسی ساز ادارے کے معاملات بھی نیب کے دائرے کار سے باہر ہوں گے۔
مجوزہ مسودے میں بیان کیا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس شیڈول سے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کا ریفرنس ختم کر دیا جائے گا جب کہ ٹرائلز احتساب عدالتوں سے متعلقہ عدالتوں یا ریگولیٹری باڈیز کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ نیب نجی شخص کے بارے میں کسی سرکاری عہدیدار کو مالی فائدہ یا کوئی اثاثہ دیے جانے تک کارروائی نہیں کرے گا، اہلیہ، بچے، بھائی، بہن بے نامی دار کی کیٹیگری میں نہیں آئیں گے جب تک کہ زیر کفالت اہلیہ اور بچے ذاتی طور پر ٹیکس فائلر نہ ہوں جب کہ نیب ضابطہ کی کارروائی میں خامی، غلط رائے یا فیصلے پر بھی عوامی عہدیدار کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا۔
نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کے مجوزہ مسودے کے مطابق نیب کسی انکوائری یا تفتیش کے دوران جائیداد پر قدغن نہیں لگا سکے گا اور عدالت بھی جائیداد پر قدغن کے بارے میں متعلقہ شخص کو سنے بغیر کوئی آرڈر جاری نہیں کرے گی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ جرم جس علاقے کی حدود میں سرزد ہوا ہو گا وہیں کی عدالت میں ٹرائل ہوگا اور کسی بھی مقدمے کا فیصلہ 30 دن میں کرنا ہوگا، جس کے بعد چیئرمین نیب انکوائری یا تفتیش ختم ہونے پر عدالت کو منظوری کے لیے معاملہ بھیجے گا۔
مسودہ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تعیناتی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوگی۔
خیال رہے کہ نیب ترمیمی آرڈینس 2019 کو 28 دسمبر 2019 کو نافذ کیا گیا تھا جس کے ذریعے نیب کے نجی شخصیات کے خلاف کارروائی کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کی آئینی مدت 120 دن تھی جو گزشتہ جمعے کو ختم ہوگئی تھی۔