Time 31 مئی ، 2020
بلاگ

شبلی کا پھول اور سلیم

فوٹو: فائل

ہر نیا وزیر اطلاعات و نشریات کیبنٹ سیکرٹریٹ اسلام آباد میں یہ کہہ کر اترتا ہے

ہم آ گئے تو گرمیٔ بازار دیکھنا

اور جب بے آبرو ہوکر اس کوچے سے نکالا جاتا ہے تو زمانہ کہہ رہا ہوتا ہے

ترے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی

شبلی فراز اور سلیم عاصم باجوہ دونوں سے ہمیں بہت ہمدردی ہے کہ وہ اپنی میڈیا اننگز کا آغاز ایسے کشیدہ ماحول میں کر رہے ہیں جب ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف کئی ماہ سے نیب کے حوالات میں بند ہیں۔ ہر روز ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج بھی ہورہا ہے۔

پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات ہو یا حکومت کا وزیر اطلاعات و نشریات۔ ذمہ داری ان کی پارٹی یا حکومت کی تشہیر ہوتی ہے۔ مگر اس کی اپنی تشہیر زیادہ ہونے لگتی ہے۔ تو پارٹی کے عہدیداروں یا ساتھی وزرا کے دلوں میں وہ کانٹے کی طرح کھٹکنے لگتا ہے۔ سارے وزرا اپنے قائد سے اس کے خلاف شکایتیں لگانے پہنچ جاتے ہیں۔ عمران انتظامیہ کی نئی میڈیا ٹیم نے کورونا کے وبائی دنوں میں اپنا عہدہ سنبھالا۔ ایک خبر سامنے آئی کہ حکومت کام اچھے کررہی ہے۔ مگر اس کی تشہیر ٹھیک سے نہیں ہورہی ہے۔ اس کے لیے فنڈز مخصوص کیے جائیں۔

ہر حکومت کے دَور میں کچھ بزعم خود میڈیا ماہرین امکانی رپورٹس لے کر سیکرٹریٹ کے ارد گرد گھوم رہے ہوتے ہیں جب انہیں بادشاہ وقت کے حضور شرف باریابی مل جاتا ہے تو وہ عرض گزارتے ہیں کہ حضور کا اقبال بلند ہو۔ظلّ سبحانی بڑے تاریخی کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ لیکن آپ کو میڈیا اچھا نہیں مل رہا ہے۔ الگ سے ایک میڈیا سیل قائم کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ نظر سیکرٹ فنڈز پر ہوتی ہے۔ یوں ایک اطلاعاتی ڈھانچہ وزارت اطلاعات کے متوازی کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اب بھی معلوم نہیں کتنے میڈیا سیل کام کررہے ہیں۔ کتنے مشیر کتنے ترجمان ہیں جن پر وزارت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

پہلے صرف اخبارات پرائیویٹ سیکٹر میں تھے۔ ٹی وی ریڈیو حکومت کے دست و بازو تھے۔ اب میڈیا میں حکومت کا اپنا حصّہ بہت کم رہ گیا ہے۔ پرائیویٹ چینل۔ پرائیویٹ ریڈیو۔ اور سوشل میڈیا جس کے لاکھوں مالک ہیں۔اکثر مالک نامعلوم ہیں۔ شبلی فراز کا کام ماضی کے وزرائے اطلاعات پیر علی محمد راشدی ۔ خواجہ شہاب الدین۔ مولانا کوثر نیازی۔ راجہ ظفر الحق۔ جاوید جبار۔ شیخ رشید احمد۔ چوہدری شجاعت حسین۔ قاضی عبدالجبار عابد۔ محمد علی درانی کے مقابلے میں بہت مشکل ہے۔ اب لفافے نہیں چلتے، بریف کیس کا زمانہ بھی گزر گیا۔ پلاٹ بھی حکومت کے پاس نہیں رہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ملکی سا لمیت کے تحفظ۔ حکومتوںکی بقا کی جنگ موبائل اسکرین پر لڑی جارہی ہے۔ یہ کروڑوں کی تعداد میں ہر وقت عوام کے ہاتھوں میں ہیں۔

نشتر پارک میں ایک بڑے جلسے میں صدر بھٹو وزیر اطلاعات حفیظ پیر زادہ سے کہہ رہے ہیں ’یہ کیا ہر خبرنامے میں صدر بھٹو۔ صدر بھٹو کی تکرار ہوتی ہے۔پیرزادہ بند کرو یہ سب کچھ۔‘

پیر زادہ جلوت اور خلوت کی بات کا فرق جانتے تھے۔ اس لیے بند کچھ نہیں ہوا۔1977ء کے بد قسمت الیکشن سے پہلے بھٹو صاحب کو بلا مقابلہ انتخاب کا مشورہ دیا گیا۔ پھر مشیر اطلاعات پیر علی محمد راشدی نے تمام اخبارات کے صفحہ اوّل پر پوری تین کالمی تصویر بھٹو صاحب کی چھپوائی اس کیپشن کے ساتھ۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ قوم کے مسلّمہ اور متفقہ لیڈر۔ اس تصویر نے پانسہ پلٹ دیا۔

ایوب خان کے لیے میڈیا ٹیم ’عشرہ اصلاحات‘ منانے کا مشورہ زوال کا باعث بن گیا۔ جنرل ضیا کو اپنے جبر اور سفاکی کے لیے زیادہ تشہیر کی ضرورت تھی۔ وہ ہر مہینے پاکستان کے دس ایڈیٹر مالکان سے رات گئے تک ملتے تھے۔ ان کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق تھے۔ لیکن جنرل ضیا کی تشہیر اور میڈیا کی نکیل جنرل مجیب الرحمٰن کے ہاتھوں میں تھی۔ کئی کئی مہینوں تک قبل از اشاعت سنسر بھی نافذ رہا۔

جنرل ضیا کے بعد 1988کے انتخابات میں وزارتِ اطلاعات نے اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدواروںکی تشہیر کے لیے دل لگاکر کام کیا۔ آج کل جس طرح میڈیا گزشتہ دور کے اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی کی شکایت کررہا ہے۔ اورینٹ ایڈورٹائزنگ کے درد مند اور مشفق مالک حسین ہاشمی شکوہ کرتے رہے کہ آئی جے آئی کی مہم سے وہ پی پی پی کے نا پسندیدہ بن گئے۔ مگر ان کی ساری رقم ماری گئی۔ 

بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور درمیان میں عبوری حکومتوں میں وزرا کے اطلاعات اشتہارات اور سیکرٹ فنڈ سے میڈیا کا منہ بند رکھتے رہے۔ ایک فلسفہ یہ بھی تھا کہ صفحہ اوّل پر صفحہ آخر پر حکومت کے اتنے بڑے اشتہارات دے دو کہ اپوزیشن کی خبروں کے لیے جگہ بھی نہ رہے۔ مشرف کے دَور میںپرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے لائسنس میڈیا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ شیخ رشید احمد وزیر اطلاعات تھے۔ لیکن یہ نوازش بے نتیجہ رہی۔ مشرف کا زوال میڈیا کے ہاتھوں ہی ہوا۔

سرکاری اشتہارات میڈ یاکرپشن کا بڑا وسیلہ رہے ہیں۔ بعض ڈمّی اخبارات کو لاکھوں روپے اس مد میں ایڈوانس دے دیے جاتے تھے۔ اکیسویں صدی کے میڈیا میں میڈیا والوں کا حصّہ اتنا نہیں جتنا حکمرانوں اور اشتہاری کمپنیوں کا ہے۔

کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے

ہم بادہ کشوں کے حصّے کی کچھ جام میں کمتر جاتی ہے

اکثر میڈیا گروپوں نے کسی نہ کسی الیکشن کے قریب جنم لیا ہے۔ کچھ کی خواہش مقتدر قوتوں کی قربت ہے۔

شبلی فراز اور جناب عاصم باجوہ سے معذرت اور ہمدردی کہ وہ ہر وقت تذبذب کی شکار حکومت کا میڈیا سنبھالتے آرہے ہیں۔ ایک یہ مشورہ ہے کہ وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ کے ٹوئٹر اکائونٹ بند کردیے جائیں تو آدھی سے زیادہ مشکلات آسان ہوجائیں گی۔ عید کے روز جب پورا ملک سوگ میں تھا۔ اس وقت ایک اہم شخصیت کے کسی تفریحی مقام پر دکھائی دینے سے عوام کے ذہن پر پڑنے والی ضرب کاری کا مداوا مضبوط سے مضبوط میڈیا ٹیم بھی نہیں کر سکتی۔ عقل سلیم کام آتی ہے نہ شبلی کا پھول۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔