Time 11 جون ، 2020
بلاگ

اعلیٰ عہدوں پر فائز بدکردار

فوٹو فائل—

1971ء کے مشرقی پاکستان کے سانحہ پر حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ پڑھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پاکستان کو جب دولخت کیا جا رہا تھا تو اُس وقت کے ہمارے حکمران عیاشیوں میں مبتلا تھے۔ رپورٹ میں اُن عورتوں کی تفصیل تاریخوں کے ساتھ دی گئی ہے جو ہمارے بدکردار حکمرانوں کی عیاشی کے لیے اُن کی سرکاری رہائشگاہوں میں رات گزارنے کے لیے آتی تھیں۔ 

میں اپنے اس کالم میں کسی فرد کا نام نہیں لکھنا چاہتا لیکن حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ ایک واحد سرکاری تحقیقاتی رپورٹ ہے جس میں مشرقی پاکستان کے سانحہ کے مختلف عوامل میں شامل ہمارے حکمرانوں کے ذاتی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کرداروں کے بارے میں پڑھ کر گھن آتی ہے اور بندہ حیران ہو جاتا ہے کہ اس قدر بدکردار اور گندے لوگ کس طرح اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ 

مجھے اس رپورٹ کو پڑھے کافی عرصہ ہو گیا لیکن رپورٹ کے اس پہلو کا خیال میرے ذہن میں اُس حالیہ تنازع کی بنا پر آیا جس میں پاکستان میں رہنے والی ایک غیر ملکی خاتون نے پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنمائوں پر اپنے ساتھ مبینہ زیادتی کے الزامات لگائے اور کہا کہ اُس کے ساتھ زیادتی گزشتہ پی پی پی کے دورِ حکومت کے دوران کی گئی۔

اس خاتون کے الزامات کو متعلقہ پی پی پی رہنمائوں نے جھوٹ کہہ کر جھٹلا دیا۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن یہ وہ الزامات ہیں جن کا گاہے بگاہے سامنا ہمارے کئی سیاسی اور فوجی حکمرانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ میں ایسے معاملات پر لکھنے سے عموماً گریز کرتا ہوں اور یہ بھی مناسب نہیں سمجھتا کہ چاہے کتنی ہی سچی خبر ہو، کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں نہ لکھا جائے۔ 

مجھے ثبوتوں کے ساتھ چند سیاسی رہنمائوں کی ذاتی زندگی کے بارے میں مواد دیا گیا جو میڈیا کے لیے بہت بڑی خبر بھی بن سکتا تھا لیکن میں نے ایسی خبریں دینا پسند نہ کیا اور نہ ہی ایسے کسی سورس کی حوصلہ افزائی کی۔ جس طرح موجودہ تنازع پر میڈیا میں خبریں نشر کی جا رہی ہیں مجھے اس پر بھی اعتراض ہے۔ لیکن ایک مسلمان اور ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ فکر ضرور لاحق ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے کئی سابق اور موجودہ حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔

جو لوگ حکمرانی کریں، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں یا اُن کا تعلق سیاست سے ہو، اُن کو خاص طور پر باکردار ہونا چاہیے۔ کسی کی ذاتی زندگی میں ہمیں جھانکنے اور ٹوہ لگانے کی ضرورت نہیں لیکن اگر ہمارے حکمران، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد اور سیاسی رہنمائوں میں بدکرداری پائی جاتی ہو تو یہ ریاست کیساتھ ساتھ پورے معاشرے کے لیے بھی خطرناک ہو گا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بدکردار ہے اور اُس کی بدکرداری کے بارے میں اُس کے اردگرد کے لوگ جانتے بھی ہیں تو اُسے سیاست، سرکاری اور دوسرے شعبوں میں آگے جانے سے نہیں روکا جاتا۔

آئین پاکستان کے مطابق کوئی شخص اگر باکردار نہیں تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا لیکن آئین کی ان شقوں پر عمل ہی نہیں کیا جاتا۔ ماضی کا ایک ممبر قومی اسمبلی شراب و شباب کے اپنے شوق کا کھل کر میڈیا پر بیان کرتا رہا لیکن اُسے کسی نے نہیں پوچھا نہ اپنی سیاسی جماعت نے نہ ہی ریاست کے کسی ادارہ نے۔ ریاست کا یہ وہ رویہ ہے جس نے بدکرداری کو گناہ یا برائی ماننا چھوڑ دیا۔ 

عمومی طور پر اب تو اگر کسی کے بارے میں یہ یقین بھی ہو کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بہت گندا ہے تو اُس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور ایسا شخص سیاست میں ہو یا ریاست کا کوئی اعلیٰ عہدیدار، اُس کے اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اخباروں میں لوگوں کی ذاتی زندگی کے حوالے سے اچھالی جانے والی گندگی اور ایسی خبروں پر تبصروں کے بجائے اس خرابی کا تدارک اور کوئی حل بھی تلاش نہیں کیا جاتا اور یہی آج بھی ہو رہا ہے۔

میڈیا ایسی خبروں پر خوب سنسنی پھیلا کر اپنی ریٹنگ تو ضرور بڑھا رہا ہے لیکن اگر یہ بات کی جائے کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کا نہ صرف سیاست دانوں اور ممبرانِ پارلیمنٹ پر سختی سے نفاذ کیا جائے بلکہ ان آئینی شقوں کا دائرہ کار ہر اہم سول و فوجی عہدیدار پر کیا جائے تو میڈیا کا ایک بااثر طبقہ اس اقدام کی مخالفت کرے گا۔

 سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کے بارے میں ایسی خبروں پر تو خوب مسالا لگا لگا کر تبصرے کرتی ہیں لیکن جب کہا جائے کہ آئین کی شقوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے کسی بدکردار کو الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہ دیں تو کہتے ہیں کہ یہ آئینی شقیں تو قابل عمل ہیں ہی نہیں۔ ایسی دو نمبری کے ہوتے ہوئے ہم باکردار سیاسی اور سرکاری قیادت کیسے حاصل کر پائیں گے؟؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔