11 جون ، 2020
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس امکانی طور پر رواں ہفتے ہی ختم ہو جائیں گے اور اطلاعات کے مطابق 12جون قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے اس لیے اہم ہوگا کہ اگر طے شدہ شیڈول میں کوئی ردوبدل نہ ہوا تو وفاقی بجٹ 12جون کو ہی پیش کیا جائے گا جو یقیناً حکومت کیلئے ایک آزمائش کا مرحلہ ہوگا۔
عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث پاکستان کو پہنچنے والے معاشی نقصان کا تخمینہ 25کھرب روپے تک لگایا گیا ہے۔ گوکہ ہر حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر اعداد وشمار کا گورکھ دھندا بلکہ بسا اوقات تو ہندوسوں کی شعبدہ بازیاں پیش کی جاتی ہیں جس کا اس ملک کے عام کیا خواص کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
انہیں تو بس اس بات سے سروکار ہوتا ہے کہ ان کے استعمال میں آنے والی روزمرہ اور بنیادی ضرورت کی اشیا سستی ہوئی ہیں یا نہیں۔ تاہم اس مرتبہ خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کے ارکان نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ آنے والے بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگیں گے۔ ایک ایسی صورتحال میں کہ جب کورونا وائرس کے باعث صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں معیشت بحران کا شکار ہوئی ہے اور انھیں اس بحران کی وجہ سے نئے نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
پھر ترقی پذیر ملکوں کے عوام کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ جی سیون کے ممالک بھی مسائل کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی اضافی اور نئے ٹیکس کے بغیر بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو وہ واقعی حکومت کا بڑا اقدام ہوگا۔
تاہم یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت بجٹ میں جن چیزوں پر عوام کو ریلیف دے یا کسی قسم کا کوئی اضافی ٹیکس نہ لگائے تو اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اس پر عملدرآمد بھی ہوگا کیونکہ ہر موقع سے فائدہ اٹھانے والے تاجر طبقہ کی یہ روایت بن چکی ہے کہ وہ بجٹ پیش کیے جانے سے قبل ہی از خود اشیا مہنگی کرنے کا جواز بنا لیتے ہیں اور اس کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
جب تک حکومتی ریلیف کے اعلان اور اقدامات پر عملدرآمد کیلئے انتظامی طور پر کڑی نگاہیں نہیں ہوں گی، عوام تک ان کے ثمرات نہیں پہنچ پائیں گے۔ جسکی حالیہ مثال پٹرول کی مصنوعات کی قیمت میں کمی کا اعلان ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں لازمی کم ہونی چاہئے لیکن قیمتوں میں کمی تو دور کی بات خود پٹرول ہی ناپید ہوگیا ہے۔ جبکہ بعض مقامات سے پٹرول بلیک کیے جانے کی اطلاعات بھی آئی ہیں۔ کورونا وائرس سے ملک کے دیہاڑی دار اور کم آمدنی والے طبقات کے مالی حالات انتہائی تشویشناک ہیں۔
اگر آنے والے بجٹ میں ان کی بطور خاص اشک شوئی ہو جائے تو یہ خود حکومت کیلئے بہتر ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ’’متذبذب‘‘ راہنما جہانگیر ترین خان جو شوگر سکینڈل کے حوالے سے اپنی قیادت سے ناراض ہیں گزشتہ دنوں اپنے صاحبزادے کے ہمراہ لندن روانہ ہو گئے تھے تادم تحریر ان کی لندن سے کسی اہم یا قابلِ ذکر مصروفیت کی تو کوئی اطلاع نہیں آئی لیکن قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ شوگر سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں اگر ان کا نام ذمہ داروں میں شامل ہوا تو ان کے خلاف کارروائی کرکے عمران خان اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اس لیے وہ بطور خاص روس سے ایک جہاز چارٹرڈ کرکے اپنے صاحبزادے کے ہمراہ لندن گئے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان کی روانگی اسلام آباد کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے ہوئی اور ان کی روانگی کے وقت تک ان کا نام ای سی ایل میں موجود نہیں تھا۔
اپوزیشن کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے خود انھیں بیرون ملک جانے کا مشورہ دیا تھا اور ان کی روانگی کی فضا کو سازگار بنایا تھا۔ جبکہ خود جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ گو کہ وہ کینسر کے مرض سے پوری طرح صحتیاب ہو چکے ہیں لیکن برطانیہ میں ان کے ڈاکٹرز نے انھیں چونکہ ہر سال طبی معائنے کا مشورہ دیا تھا اس لیے وہ معائنے کے بعد جلد واپس آجائیں گے۔
جہانگیر ترین کی لندن روانگی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب لندن میں زیر علاج میاں نواز شریف کی گھر سے باہر کافی پینے اور سڑک پر چہل قدمی کی تصویریں وائرل ہورہی ہیں۔ یہ کوئی ناممکن تو نہیں ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جنھیں ان کے معالجین نے روزانہ ایک گھنٹے چہل قدمی کی ہدایت کی ہے ان کی اچانک ہی ملاقات جہانگیر ترین سے ہو جائے۔
پھر جب دکھ سانجھے ہوں تو ردِعمل اور اظہار کا طریقہ کار بھی مشترک ہو جاتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی طبیعت کے بارے میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تاہم بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے خود بتایا ہے کہ ان کے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آصف علی زرداری کے سیاسی طور پر غیرفعال ہونے کے باوجود ان کی علامتی حیثیت بھی اتنی اہم ہے جس نے پارٹی کو منظم اور مستحکم رکھا ہوا ہے۔
بحرحال آصف علی زرداری کی عدم موجودگی میں پارٹی کی صورتحال کیا ہوگی اور بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بےنظیر بھٹو کی جماعت کو کیا بلاول بھٹو سنبھال پائیں گے یا نہیں اس بارے میں متضاد آرائیں ہیں لیکن اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی میں ایک مضبوط فارورڈ گروپ بنانے پر عملی پیش رفت کا آغاز ہو چکا ہے۔
جس کے حوالے سے سندھ کے ایک شاہ صاحب جو قومی اسمبلی کے رکن ہیں ہر چند کہ ان کی وابستگی پی ٹی آئی سے ہے لیکن وہ ایوان میں آزاد رکن کی حیثیت سے بیٹھتے ہیں ان کی خدمات حاصل ہو چکی ہیں اور غیرمحسوس طریقے سے سرگرم عمل ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حال ہی میں طے شدہ منصوبے کے تحت اچانک ہی منظرعام پرآنے والی امریکن خاتون سنتھیارچی کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنمائوں پرلگائے جانے والے الزامات بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں تاکہ عوام کی نظروں میں اس پارٹی کے راہنمائوں کو بےتوقیر اورپارٹی کے حوالے سے سیاست کو رُسوا کیا جا سکے۔
مذکورہ امریکن خاتون کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ جنھیں وہ منظرعام پر لائیں گی۔ اگر یہ شواہد واقعتاً درست ہوئے تو پھر ایک طرف پیپلز پارٹی کیلئے یہ ایک بڑا امتحان ہوگا تو دوسری طرف اگلہ مرحلہ یہاں سے شروع ہوگا جس میں معاملہ صرف پیپلز پارٹی کے راہنمائوں پر ہی نہیں رکے گا۔
ہو سکتا ہے کہ اب عزیر بلوچ کے کچھ انکشافات بھی سامنے آنا شروع ہوجائیں لیکن پیپلز پارٹی کے جن راہنمائوں پر الزامات لگائے گئے ہیں اس کے دفاع اور جواب میں انہوں نے جو جواز پیش کیے ہیں وہ مضحکہ خیز ہونے کی حد تک کمزور ہیں۔ انہیں اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے دفاع کا اس وقت خیال کیوں نہیں آیا۔ قصہ مختصر کہ یہ معاملہ خاصا طویل چلے گا۔ ابھی اس میں نئے نئے کردارسامنے آنے ہیں ۔
فی الحال تو سنتھیارچی نے پاکستان کے میڈیا میں ہلچل مچا رکھی ہے اورکورونا کی وباسمیت ملک کے کئٰ اہم ایشوز جن میں عوام کی اجتماعی مشکلات کے ایشوز بھی شامل ہیں ۔وہ قدرے پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔ کیا ایسی صورتحال پیدا کرنا کوئی شعوری کوشش تونہیں ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔