18 جون ، 2020
یہ وبا کا دور ہے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان اور گردونواح کے ممالک میں بھی روزانہ سینکڑوں لوگ مر رہے ہیں۔ ابھی تک اس وبا کا بہترین علاج احتیاط ہے لیکن جو احتیاط نہیں کر رہے اُنہیں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے جاہل قرار دے دیا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے شو میں کہا کہ لاہوریے اللہ تعالیٰ کی الگ مخلوق لگتے ہیں، وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے شاید ہی کوئی قوم اتنی جاہل ہوگی جیسی باتیں ہم کرتے ہیں۔ اُن کے اس بیان کے اگلے روز پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کو جاہل کہنے والوں سے اگلے الیکشن میں عوام بدلہ ضرور لیں گے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے بیان سے صرف بلاول نہیں اکثر لاہوریے بھی بہت ناراض ہیں۔
جب تین ماہ قبل کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بلاول صاحب دو تین ہفتے کے لاک ڈائون کی بات کر رہے تھے تو ڈاکٹر یاسمین راشد کے قائد وزیراعظم عمران خان لاک ڈائون کی مخالفت کر رہے تھے۔ پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لاک ڈائون کا اعلان کر دیا تو عمران خان نے کہا کہ امیروں نے غریبوں کا لاک ڈائون کر دیا۔ پھر لاک ڈائون ختم ہوا اور پاکستان کے بڑے شہروں میں تیزی سے وبا پھیلنے لگی تو لاہور کے 61علاقوں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ بہت سے لاہوریے کہتے ہیں کہ ہم جاہل نہیں بلکہ ہمارے سیاسی قائدین پڑھے لکھے جاہل ہیں جو وبا کے دور میں بھی ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہے اور عوام کو کنفیوز کر دیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے یہ بات ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے کی ہے جو کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے سے پریشان ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ سٹپٹا گئی ہیں لیکن وبا کے دور میں ڈاکٹر صاحبہ کو الفاظ کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہئے تھی۔ لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔
یہیں پر 23مارچ 1940کی قرارداد منظور ہوئی جس کے بعد پاکستان کی تحریک فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوئی۔ کیا بےاحتیاطی صرف لاہوریوں نے کی ہے؟ کیا راولپنڈی کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور کراچی کے وفاقی وزیر امین الحق کورونا وائرس کا شکار نہیں ہوئے؟ کیا یہ دونوں جاہل ہیں؟
میں ذاتی طور پر ڈاکٹر یاسمین راشد کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن اُن کے حالیہ بیان کے بعد میں نے بھی سوچا کہ بےاحتیاطی تو پورے پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں کی جا رہی ہے پھر ڈاکٹر صاحبہ نے غصہ صرف لاہوریوں پر کیوں نکالا؟ اس سوال کا جواب مجھے فوراً مل گیا لیکن جواب آپ کے گوش گزار کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ لاہور کے لوگ اتنے عجیب نہیں البتہ لاہور پر بڑے عجیب عجیب لوگوں نے حکومت کی ہے۔
بہت سے حکمران ایسے تھے جو لاہور پر لاہوریوں کی مرضی کے خلاف مسلط کر دیے گئے، وہ لاہوریوں پر بھی ظلم کرتے تھے اور ملتان والوں پر بھی ظلم کرتے تھے اور گالی لاہوریوں کو دی جاتی تھی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا آبائی شہر چکوال ہے لیکن وہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد لاہور میں آباد ہوئیں۔ اُنہیں لاہور کی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ احمد شاہ ابدالی اپنے تیس سالہ دور اقتدار میں نو بار لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ اُس نے لاہور کو ایک سکھ سردار لہنا سنگھ کے حوالے کر دیا۔
اُس نے لاہور پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے دو سکھ سرداروں صوبہ سنگھ اور گجر سنگھ کو بھی شریک اقتدار کر لیا۔ گجر سنگھ نے لاہور میں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا اور یہ علاقہ قلعہ گجر سنگھ کہلاتا ہے۔ یہ تینوں سردار اپنی محفلوں میں افیم استعمال کرتے اور کہتے کہ یہ کسی حکیم نے بطور دوا تجویز کی ہے لہٰذا ان سرداروں کو حکیم کہا جانے لگا کیونکہ اُن کے ہر مرض کی دوا افیم تھی۔ یہ لاہوریوں کو لوٹتے اور لوٹ مار کا بڑا حصہ افغانوں کو دیکر اپنا اقتدار قائم رکھتے۔ ان افیمیوں کے علاوہ لاہور پر تین بھنگیوں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ تینوں بھی سکھ تھے۔
چپت سنگھ، صاحب سنگھ اور مہر سنگھ بھی مل کر دس سال تک لاہور پر حکومت کرتے رہے۔ ان کے پاس احمد شاہ درانی کی ایک مشہور زمزمہ توپ بھی تھی جو بعد میں بھنگیوں کی توپ کہلائی اور آج کل مال روڈ لاہور پر نیشنل کالج آف آرٹس کے سامنے کھڑی ہے اور بھنگی حکمرانوں کی یادگار ہے۔
ان بھنگی حکمرانوں سے نجات پانے کے لئے شہر کے معزز مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں نے رنجیت سنگھ سے رابطہ کیا اور رنجیت سنگھ نے 1799میں لاہوریوں کی مدد سے بھنگی حکمرانوں کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد رنجیت سنگھ نے بھی بہت لوٹ مار کی۔
اُس نے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر سے سنگ مرمر اکھیڑا تو بیمار پڑ گیا اور قے کرنے لگا چنانچہ اُس نے مزار پر حاضری دینا شروع کر دی اور ٹھیک ہو گیا۔ 1918میں انفلوئنزا پھیلا تو لاکھوں لوگ مارے گئے۔ لاہور میں ہر دوسرا شخص بیمار پڑ گیا۔ رائے بہادر میلا رام داتا گنج بخشؒ کے مزار کے قریب اپنی مشہور لال کوٹھی میں رہتے تھے۔
ان کے تین بیٹے وبا کا شکار ہو گئے۔ شہر کے ماہر ڈاکٹر اُنہیں شفایاب نہ کر سکے۔ میلا رام کے بقول اُنہوں نے داتا گنج بخشؒ کے مزار پر دعا کی اور اُن کے بیٹے ٹھیک ہو گئے جس کے بعد انہوں نے مزار کو بجلی فراہم کر کے نذرانہ پیش کیا۔ جب ڈاکٹر ناکام ہو جائیں تو پھر صرف لاہوریے نہیں پاکستان کے اکثر لوگ صوفیاء کے توسط سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لاہور والوں کو ڈاکٹر یاسمین راشد کی ہدایات کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔ لاہوریوں سمیت پاکستان کے تمام لوگ احتیاط ضرور کریں لیکن ڈاکٹر صاحبہ بھی الفاظ کے چنائو میں احتیاط کریں۔
اُنہوں نے معافی تو مانگ لی ہے لیکن آئندہ وہ احتیاط نہیں کریں گی تو پھر لاہوریے کہیں گے کہ ڈاکٹر صاحبہ ہمیں پتا ہے آپ کو ہم پر اصل غصہ کیا ہے؟ آپ 2013میں نواز شریف سے الیکشن ہار گئیں، 2017میں کلثوم نواز سے ضمنی الیکشن ہار گئیں اور 2018میں وحید عالم سے الیکشن ہار گئیں۔
آپ کی ہیٹ ٹرک مکمل ہو چکی ہے اب اگر حکومت نہیں ہو رہی تو خود ہی حکومت چھوڑ دیں ورنہ لاہوری بدظن ہو جائیں تو پھر بھنگیوں سے جان چھڑانے کیلئے کسی رنجیت سنگھ کو بلا لیتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔