19 جون ، 2020
حکومت آل پاکستان سروس کے طور پر نیشنل ایگزیکٹو سروس بنانے پر غور کر رہی ہے تاکہ پوری سول سروس سے با صلاحیت افراد کا ایک بڑا گروپ تشکیل دیا جا سکے اور اس کا انتخاب کھلے، شفاف اور مسابقتی انداز سے کیا جا سکے۔
سول سروس ریفارم کیلئے تشکیل دی گئی ٹاسک فورس کی جانب سے تیار کیے گئے مسودے میں بتایا گیا ہے کہ علاقائی نمائندگی اور صوبائی کوٹہ کے ذریعے مجوزہ نظام کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ چھوٹے صوبے بھی اعلیٰ سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی میں خود کو شراکت دار سمجھیں۔
مسودے میں این ای ایس میں چار دھاروں میں اسپیشلائزیشن کی بات کی گئی ہے تاکہ کیڈر کے ارکان کو ہنر اور معلومات سے لیس کیا جا سکے تاکہ وہ معیشت اور معاشرے کے پیچیدہ معاملات کی نشاندہی کر سکیں اور مناسب حکمت عملی اور پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔
اس میں پروموشن کے تیز ترین امکانات کی بات کی گئی ہے اور ساتھ ہی پرکشش مشاہرے کے پیکیج کا وعدہ بھی شامل ہے تاکہ بہتر کارکردگی دکھانے والوں کو مراعات دی جا سکیں اور ان سے بہترین نتائج حاصل کرتے ہوئے کرپشن کو کم ترین سطح پر لایا جا سکے۔
مسودے کے مطابق، این ای ایس کے قیام کا مقصد پالیسی سازی کے عمل کیلئے بہترین با صلاحیت افراد کو سامنے لانا ہے اور انہیں سول سرونٹس کے پورے پوُل اور پورے ملک کے دیگر با صلاحیت افراد میں سے منتخب کرنا ہے چاہے ان کا اصل کیڈر، سروس اور وابستگی کوئی بھی ہو۔
این ای ایس میں شمولیت کیلئے سول سروس کے کسی گروپ یا کیڈر کی کوئی پابندی نہیں ہوگی، سول سروس سے باہر کے پیشہ ورانہ افراد کو بھی منتخب کیاجا سکتا ہے۔ صرف ایک شرط یہ ہے کہ امیدوار اہلیت کے معیار پر پورا اتریں اور اس کے بعد سب کیلئے کھلے مسابقتی عمل میں مقابلہ کریں۔
اچھی طرز حکمرانی کے مقاصد میں عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے رد عمل پر زور دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومت میں موجود پالیسی بنانے والوں کی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ان سے مسلسل مطالبات کیے جاتے ہیں۔
سرکاری شعبے میں ملازمت کیلئے ایسے انتہائی با صلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو معیشت، سماجی ترقی، تکنیکی پیشے، ضابطے اور افرادی قوت کی مینجمنٹ کے شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
ایسی ہائی لیول کی ملازمتوں کیلئے منتخب ہونے والے امیدواروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ٹھوس معلومات اور ہنر کے ملاپ کے حامل ہیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔
معلومات کی بنیاد پر معیشت کو وہی افراد موثر انداز سے سنبھال سکتے ہیں جن میں یہ تمام خصوصیات موجود ہوں۔ مسودے میں یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ این ای ایس کی تجاویز 2019ء میں ٹاسک فورس کے روبرو پیش کی گئی تھیں جس کی رائے تھی کہ پہلی فرصت میں تربیت، پرفارمنس اپریزل، پروموشن پالیسی اور ریٹائرمنٹ کے قواعد پر کام کیا جائے گا۔
مسودے میں لکھا ہے کہ اصلاحات کے نتیجے میں مسابقتی عمل کے ذریعے این ای ایس کو موقع ملے گا کہ وہ این ای ایس کیلئے موثر اور با مقصد افراد کا انتخاب کریں۔
اب جبکہ تربیت، پرفارمنس اپریزل، پروموشن پالیسی، ریٹائرمنٹ رولز کے حوالے سے فیصلے ہو چکے ہیں، تجاویز کو ٹاسک فورس کے ا رکان اور عملد رآمد کمیٹی کے روبرو دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی رائے معلوم کی جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ سول سروس میں شمولیت کیلئے جو موجودہ طریقہ کار ہے اس کی مدد سے نوجوان مرد اور خواتین کو ایک مسابقتی امتحان پاس کرنا ہوتا ہے اور انہیں 30؍ سے 35؍ سال کی سروس کرنا ہوتی ہے۔
یہ طریقہ کار آزادی کے چند دہائیوں بعد تک بہت موزوں ثابت ہوا۔ لیکن 21ویں صدی کے چیلنجز بہت پیچیدہ ہو چکےہیں۔ ساتھ ہی اعلیٰ سروسز میں ملک کا بہترین ٹیلنٹ سامنے نہیں آ رہا۔
مسودے میں مزید لکھا ہے کہ امتحانات میں حصہ لینے والے امیدوار اور ان کا معیار زوال کا شکار ہے۔ سرکاری ملازمین کے رد عمل پر شہری اکثر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ بنیادی سرکاری سہولتیں اور سامان درست انداز سے دینے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
اگرچہ عدلیہ اور بلدیاتی اداروں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کے نتیجے میں ان معاملات کو زیادہ نظریہ کلیت کی رو سے حل کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس کے باوجود سرکاری ملازمین کے موجودہ کردار، ذمہ داریوں اور مراعات پر دوبارہ غور کرنے اور ان کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔
سرکاری ملازمین کی اکثریت بھی اپنے کام کرنے کے ماحول سے مطمئن نہیں، انہیں مشاہرہ خراب مل رہا ہے، سیاسی مداخلت زیادہ ہے، نیب، عدلیہ اور میڈیا کا خطرہ ہے جبکہ ہر آئے دن تقرری و تبادلے بھی ہوتے ہیں جن سے نہ صر ف ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے بھی انہیں کوئی مدد میسر نہیں۔
لہٰذا اس ماڈل کے تحت کم عمر میں دیے گئے انٹری امتحان کے ذریعے یقینی کیریئر کا خیال اب نہیں رہے گا یا پھر مزید عرصہ کیلئے باقی نہیں رہے گا۔ ایک نیا ہائبرڈ ماڈل بنایا جائے گا جس میں ماہرین اور اپنے شعبے کی معلومات رکھنے والوں کو ہی پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا اور ساتھ ہی وسیع تجربہ، قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد اور مختلف پہلوئوں پر غور و فکر کرنے افراد کو ہی پالیسی سازی تک آگے لایا جائے گا۔
قائدانہ صلاحیتیں صرف ایک گروپ تک محدود نہیں ہیں بلکہ دیگر گروپس میں بھی انہیں تلاش کیاجا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر نے تیسری سطح کے اسپتالوں اور میڈیکل کالجز کو انتہائی موثر اور با صلاحیت انداز سے چلایا ہے جبکہ ایک انجینئر نے کامیابی کے ساتھ واپڈا میں خدمات انجام دی ہیں۔
اسی ادارے یعنی واپڈا کو سول سروس آف پاکستان کے کئی شاندار افسران نے بھی چلایا ہے۔ ان مثالوں سے ملنے والے سبق سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مختلف خصوصیات کے ملاپ کے حامل با صلاحیت افراد کو این ای ایس کی بنیاد بنانا چاہئے اور جنرلسٹ اور اسپیشلسٹ کی موجودہ مخاصمانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہئے۔
این ای ایس ایسے افراد کو اپنی طرف راغب کرے گی جو ہنر اور تجربے کے حامل ہیں جن میں جنرلسٹ اور اسپیشلسٹ دونوں شامل ہوں گے جو مذکورہ بالا تمام خصوصیات کا مظاہرہ کریں گے۔ مسودے میں لکھا ہے کہ جن معاملات پر فیصلہ ہونا چاہئے وہ یہ ہیں:
۱) این ای ایس کو آل پاکستان سروسز اور فیڈرل آکیوپیشنل گروپس سے علیحدہ بنانا چاہئے یا نہیں۔
۲) کیا این ای ایس میں چار اسپیشلائزڈ گروپس ہونا چاہئیں؟
۳) کیا این ای ایس کو آل پاکستان سروس ہونا چاہئے جو صوبائی سیکریٹریٹس میں کچھ عہدے شیئر کریں؟
۴) کیا یہ بہتر ہوگا کہ این ای ایس کے عہدیداروں کو بنیادی پے اسکیل (بی پی ایس) کے گریڈز سے علیحدہ رکھنا چاہئے اور انہیں ایم پی اسکیل کے تحت تنخواہ دینا چاہئے؟
۵) کیا این ای ایس کے قیام سے حکومت کی تحریک، صلاحیت، کارکردگی، پیداواریت میں اضافہ ہوگا یا آکیوپیشنل گروپس کی حوصلہ شکنی ہوگی کہ وہ این ای ایس کے تحت ا ز خود کسی بھی عہدے کیلئے اہل نہیں ہوں گے؟
۶) کیا گریڈ 20؍ تا 22؍ کے حامل موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے افسران کو این ای ایس میں ضم ہونے کا موقع دیا جائے گا یا نہیں یا انہیں بھی بھرتی کیلئے دیگر اہل امیدواروں کے ساتھ سی ایس بی (سینٹرل سلیکشن بورڈ) اور ایچ پی ایس بی (ہائی پاورڈ سلیکشن بورڈ) کے اسکریننگ کے عمل سے گزرنا پڑے گا؟